سورة الاعراف - آیت 189

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا ۖ فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفًا فَمَرَّتْ بِهِ ۖ فَلَمَّا أَثْقَلَت دَّعَوَا اللَّهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہی ہے جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا، تاکہ وہ اس کی طرف (جاکر) سکون حاصل کرے، پھر جب اس نے اس (عورت) کو ڈھانکا تو اس نے ہلکا سا حمل اٹھا لیا، پس اسے لے کر چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ بھاری ہوگئی تو دونوں نے اللہ سے دعا کی، جو ان کا رب ہے کہ بے شک اگر تو نے ہمیں تندرست بچہ عطا کیا تو ہم ضرور ہی شکر کرنے والوں سے ہوں گے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آیت (١٨٩) میں مشرکوں کی یہ گمراہی واضح کی ہے کہ اپنی احتیاجوں اور مصیبتوں میں خدا سے التجائیں کرتے ہیں لیکن جب مطلب حاصل ہوجاتا ہے تو اسے ان آستانوں اور معبودوں کی بخشش سمجھنے لگتے ہیں جو انہوں نے ٹھہرا رکھے ہیں۔ چنانچہ مشرکین عرب مصیبتوں میں خدا ہی کو پکارتے تھے۔ لیکن جب مصیبت ٹل جاتی تو اپنے بنائے ہوئے آستانوں پر نذریں چڑھاتے اور اپنی اولاد کو ان کی طرف منسوب کرتے اور کہتے یہ انہی کی بخشش ہے کہ ہمیں اولاد ملی۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ شرک کی قسموں میں سے ایک قسم شرک فی التسمیہ ہے۔ یعنی غیر خدا کی طرف منسوب کر کے نام رکھنا۔ چنانچہ مشرکین عرب عبدالعزی، عبد الشمس وغیرہا نام رکھتے تھے اور افسوس ہے کہ مسلمان بھی اب اسی طرح کے نام رکھنے لگے ہیں۔ (١) تغاشاھا کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ ڈھانپ لیتا ہے اور یہ عربی میں اس بات کے لیے کنایہ ہے جسے ہم نے اردو میں ملتفت ہونے سے ادا کیا ہے۔