قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔
انسان کی ایک عالمگیر گمراہی یہ رہی ہے کہ جب کوئی انسان روحانی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو لوگ چاہتے ہیں اسے انسانیت و بندگی کی سطح سے بلند کر کے دیکھیں لیکن قرآن نے پیغمبر اسلام کی حیثیت ایسے صاف اور قطعی لفظوں میں واضح کردی کہ ہمیشہ کے لیے اس گمراہی کا ازالہ ہوگیا۔ صرف یہی ایک بات ان کی صداقت کے اثبات کے لیے کفایت کرتی ہے۔ جو دنیا اپنے پیشواؤں کو خدا اور خدا کا بیٹا بنانے کی خواہش مند تھی اسلام کے پیغبر نے اس سے اتنا بھی نہ چاہا کہ کاہنوں کی طرح مجھے غیب داں تسلیم کرلو۔ زیادہ سے زیادہ بات جو اپنی نسبت سنائی، یہ تھی کہ انکار و بدعملی کے نتائج سے خبردار کردینے والا اور ایمان و نیک عمل کی برکتوں کی بشارت دینے والا ایک بندہ ہوں۔ اگر میں غیب داں ہوتا تو زندگی کا کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ مجھے کیا معلوم قیامت کب آئے گی۔ کیا ایسے انسان کی زبان سے سچائی کے سوا کوئی بات نکل سکتی ہے؟ چہ عظمت دادہ یا رب بخلق آن عظیم الشاں کہ انی عبدہ گوید بجائے قول سبحانی !!!