سورة البقرة - آیت 106

مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جو بھی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے بھلا دیتے ہیں، اس سے بہتر، یا اس جیسی (اور) لے آتے ہیں، کیا تو نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کا ظہور اس لیے ہوا کہ یا تو "نسخ" کی حالت طاری ہوئی۔ یا "نسیان" کی۔ "نسخ" یہ ہے کہ ایک بات پہلے سے موجود تھی لیکن موقوف ہوگئی، اور اس کی جگہ دوسری بات آگئی "نسیان" کے معنی بھول جانے کے ہیں۔ بعض حالتوں میں ایسا ہوا کہ پھچلی شریعت کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی، لیکن احوال و ظروف بدل گئے تھے، یا اس کے پیرووں کی عملی روح معدوم ہوگئی تھی۔ اس لیے ضروری ہوا کہ نئی شریعت ظہور میں آئے۔ بعض حالتوں میں ایسا ہوا کہ امتداد وقت سے پچھلی تعلیم بالکل فراموش ہوگئی، اور اصلیت میں سے کچھ باقی نہ رہا، پس لامحالہ تجدید ہدایت ناگزیر ہوئی۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ یہ نسخ شرائع ہو یا نسیان شرائع، لیکن ہر نئی تعلیم پچھلی تعلیم سے بہتر ہوگی یا اس کے مانند ہوگی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کمتر ہو۔ کیونکہ اصل تکمیل و ارتقاء ہے، نہ کہ تنزل و تسفل۔ کثرت سوال اور تعمق فی الدین کی ممانعت۔ "تعمق" یعنی ضرورت سے زیادہ باریکیاں نکالنی اور کاوشیں کرنی اور ایک سیدھے سادھے عماملہ کو پیچیدہ بنا دینا۔