وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا، تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے؟ اس نے کہا ہم ان کے بیٹوں کو بری طرح قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے اور یقیناً ہم ان پر قابو رکھنے والے ہیں۔
فرعون کا حضرت موسیٰ کی روحانی طاقت سے مغلوب ہو کر فیصلہ کرنا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے، لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دینا کہ بنی اسرائیل کے لڑکے قتل کردیئے جائیں تاکہ ان کی تعداد بڑھنے نہ پائے۔ فرعون نے پہلے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کے خاندان کے ایک آدمی نے کہ دل میں مومن تھا اس سے باز رکھا (دیکھو ٢٨: ٤٠) پس یہاں درباریوں اور فرعون کے مکالمہ کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کہ جب حضرت موسیٰ آزاد چھوڑ دیئے گئے تو درباریوں نے کہا یہ شورش پھیلائے گا اور ہمارے دیوتاؤں سے علانیہ برگشتہ رہے گا۔ اس پر فرعون نے کہا ڈرنے کی کیا بات ہے؟ بنی اسرائیل تو ہماری طاقت کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ مصری مختلف دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے، بڑا دیوتا سورج تھا جسے رع کہتے تھے اور چونکہ پادشاہ کو اس کا اوتار سمجھتے تھے اس لیے اس کا قلب فارع تھا، یہی فارع عبرانی میں فارعوا اور عربی میں فرعون ہوگیا۔ محکومانہ زندگی کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ عزم و ہمت کی روح پژ مردہ ہوجاتی ہے۔ لوگ غلامی کے زلت انگیز امن پر قانع ہوجاتے ہیں اور طلب و سعی کی مشکلوں سے جی چرانے لگتے ہیں۔ یہی حال بنی اسرائیل کا ہوتا تھا۔ عرصہ تک مصریوں کی غلامی میں رہتے رہتے اس درجہ مسخ ہوگئے تھے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا، آزادی وکامرانی کی طلب میں ان حقیر راستوں سے کیوں ہاتھ دھو بیٹھیں جو غلامی کی حالت میں میسر آرہی ہیں؟ حضرت موسیٰ نے جب صبر و استقامت کی تلقین کی تو شکر گزار ہونے کی جگہ الٹی شکایتیں کرنے لگے۔ وہ ان کی نجات و کامرانی کے لیے فرعون کا مقابلہ کر رہے تھے۔ انہیں شکایت تھی کہ تمہاری اس جدوجہد نے فرعون کو اور زیادہ ہمارا مخالف بنا دیا۔ تم فائدہ پہنچانے کی جگہ الٹے وبال جان ہوگئے۔ حضرت موسیٰ نے کہا خدا جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بنا دیتا ہے، پس اس سے مدد مانگو اور اس راہ میں جمے رہو، اس سے معلوم ہوا جو جماعت دنیوی بے سروسامانی سے ہراساں ہو کر بے ہمت نہیں ہوجاتی بلکہ خدا کی مدد پر بھروسہ کرتی اور مشکلات و موانع کے مقابلہ میں جمی رہتی ہے وہی ملک کی وراثت کی مستحق ہوتی ہے۔ یعنی استعانت باللہ اور صبر اس راہ میں اصل اصول ہیں۔ نیز فرمایا انجام کار متقیوں کے لیے ہے یعنی جو جماعت برائیوں سے بچنے والی اور عمل میں پکی ہوگی بالآخر کامیابی اسی کے لیے ہے۔ قوم فرعون پر نکبت و شدائد کا ورود اور پہلے سرکشی بھی حضرت موسیٰ سے رجوع۔ تورات میں ہے کہ دریائے نیل کا پانی لہو کی طرح ہوگیا تھا اور تمام مچھلیاں مرگئی تھیں۔ (خروج : ٢٠)