وَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْبًا إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ
اور اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جنھوں نے کفر کیا بے شک اگر تم شعیب کے پیچھے چلے تو بے شک تم اس وقت ضرور خسارہ اٹھانے والے ہو۔
(١) تمام پیغمبروں کے حالات پر غور کرو۔ (ا) سب اسی قوم میں پیدا ہوئے جس کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، ایسا نہیں ہوا کہ باہر سے کوئی اجنبی آگیا ہو جس کی زندگی سے لوگ بے خبر ہوں۔ (ب) کوئی بھی پادشاہ یا امیر نہ تھا، نہ کسی طرح کا دنیوی سروسامان رکھتا تھا، سب کا ظہور اسی طرح ہوا کہ تن تنہا اعلان حق کے لیے کھڑے ہوگئے اور صرف خدا کی معیت و نصرت پر اعتماد کیا۔ (ج) سب کا پیام ایک ہی تھ : خدا کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (د) سب نے نیک عملی کی تلقین کی انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کیا۔ (ہ) سب کے ساتھ یہی ہوا کہ رئیسوں نے سرکشی کی، بے نواؤں نے ساتھ دیا۔ (و) مخالفت بھی ہمیشہ ایک ہی طرح ہوئی۔ یعنی اعلان رسالت کی ہنسی اڑائی گئی، ان کی باتوں کو حماقت سے تعبیر کیا گیا، اہیں اور ان کے ساتھیوں کو اذیت پہنچانے کے تمام وسائل کام میں لائے، ان کی دعوت کی اشاعت روکنے کے لیے اپنی ساری قوتیں خرچ کر ڈالیں۔ (ز) پیغمبروں نے ہمیشہ کہا : اگر میری دعوت قبول نہیں کرتے تو کم از کم میری موجودگی برداشت کرلو اور مجھے اپنا کام کرنے دو، اور فیصلہ نتائج پر چھوڑ دو لیکن منکر اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے۔ (ح) ہمیشہ یہی ہوا کہ داعی حق اور ان کے ساتھی وعظ و پند کے ذریعہ تبلیغ کرتے یعنی دل و دماغ کو اپیل کرتے لیکن منکر جبر و تشدد سے ان کیراہ روکنی چاہتے، پیغمبروں کی پکار یہ ہوتی تھی کہ روشن دلیلوں پر غور کرو، منکروں کا جواب یہ ہوتا تھا کہ انہیں بستی سے نکال باہر کرو یا سنگسار کردو۔ (ط) پھر دیکھو نتیجہ بھی ہمیشہ ایک ہی طرح کا پیش آیا، وہ تمام جماعتیں جنہوں نے دعوت حق کا مقابلہ کیا تھا، ہلاک و نابود ہوگئیں اور دنیا کی کوئی طاقت بھی انہیں قانون الہی کی پکڑ سے نہ بچا سکی۔ یہی نتیجہ ہے جس پر خصوصیت کے ساتھ یہاں توجہ دلائی ہے اور قرآن دعوت حق کے ظہور و احوال کی یکسانیت سے بے شمار مقاصد و نتائج پر استدلال کرتا ہے۔ چنانچہ آیت (٩٤) میں فرمایا کہ ہمیشہ سنت الہی ایسی ہی رہی ہے، اور پھر آیت (١٠١) اور اس کے بعد کی آیات میں واضح کردیا کہ گزشتہ دعوتوں کے ذکر سے مقصود اسی حقیقت کی تلقین ہے۔