قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۚ قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ
اس کی قوم میں سے ان سرداروں نے کہا جو بڑے بنے ہوئے تھے، اے شعیب! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ہمراہ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے ضرور ہی نکال دیں گے، یا ہر صورت تم ہمارے دین میں واپس آؤ گے۔ اس نے کہا اور کیا اگرچہ ہم ناپسند کرنے والے ہوں؟
(١) (ک) آیت (٨٧) میں فرمایا وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، اور دوسری جگہ خاد کے اس فیصلہ کو قضاء بالحق اور سب سے بڑی شہادت سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے ؟ قانون الہی کا وہ اعلان جو حق کو کامیاب کر کے اور باطل کو ناکام رکھ کر اپنا فیصلہ صادر کردیتا ہے۔ (ل) آیت (٨٨) نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک مذہبی اعتقاد کا معاملہ دل کے یقن و طمانیت کا معاملہ ہے اور جبرا کسی کو اس کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ نیز یہ کہ ہمیشہ داعیان حق اور منکرین حق میں بنائے نزاع یہی بات رہی ہے کہ وہ کہ تے تھے ہمارا دل جس راہ کو حق سمجھتا ہے اسی پر چلیں گے، یہ کہتے تھے نہیں ہم تمہیں جبرا اپنی راہ پر چلا کر چھوڑیں گے۔