سورة الاعراف - آیت 73

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں۔ بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل آ چکی۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمھارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، سو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسے کسی برے طریقے سے ہاتھ نہ لگانا، ورنہ تمھیں ایک درد ناک عذاب پکڑ لے گا۔

تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(١) قوم ثمود عرب کے اس حصے میں آباد تھی جو حجاز اور شام کے درمیان وادی القری تک چلا گیا ہے۔ اسی مقام کو دوسری جگہ الحجر سے بھی تعبیر کیا ہے۔ پالتو جانوروں کو خدا کے نام پر چھوڑ دینے کا طریقہ بہت قدیمی ہے، بابل اور ہندوستان میں اس کا سرغ ہزاروں برس پیشتر تک ملتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کے لوگ بھی اپنے بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت صالح نے خدا کے نام پر ایک اونٹنی چھوڑ دی اور اسی معاملہ میں قوم کے لیے اتباع حق کی آزمائش ہوگئی۔ اگر وہ اونٹنی کو ضرر نہ پہنچاتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ ان کے دل ہدایت کے آگے جھک گئے ہیں مگر ان کے اندر خدا پرستی کے خلاف ایسی ضد اور شرارت پیدا ہوگئی تھی کہ اتنی سی بات بھی نہ مان سکے اور اونٹنی کو زخمی کر کے ہلاک کر ڈالا۔ ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلاؤ، اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ قتل و غارت، لوٹ مار، شر و فساد میں چھوٹ ہوگئے تھے اور امن و عدالت کا کوئی احساس باقی نہیں رہا تھا۔