لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، بے شک میں تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
اس کے بعد آیت (٥٩) سے پچھلی دعوتوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اس انقلاب حال پر متعجب نہ ہونا چاہیے، کیونکہ ہمیشہ سے سنت الہی ایسی ہی چلی آئی ہے اور ہمیشہ دعوت حق کی بے سروسامانیوں نے وقت کے تمام سروسامانوں پر فتح پائی ہے۔ (ا) اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت نوح کی دعوت نمایاں ہوتی ہے۔ جن کا ظہور دریائے دجلہ و فرات کے دو آبہ میں ہوا تھا جو انسانی تمدن کا سب سے قدیم گہوارہ ہے، اور جہاں غالبا سب سے پہلے بت پرستی کا ظہور ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جمعیت اپنی ابتدائی اور فطری ہدایت کی راہ سے سب سے پہلے وہیں گمراہ ہوئی تھی۔