إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ ۗ أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
بے شک تمھارا رب اللہ ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا، رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، جو تیز چلتا ہوا اس کے پیچھے چلا آتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کیے) اس حال میں کہ اس کے حکم سے تابع کیے ہوئے ہیں، سن لو! پیدا کرنا اور حکم دینا اسی کا کام ہے، بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
(١) توحید الوہیت (توحید الوہیت یعنی خدا کے سوائی کوئی ہستی اس کی مستحق نہیں کہ معبود بنائی جائے، توحید ربوبیت یعنی کائنات کی پیدا کرنے والی اور پرورش کرنے والی ہستی صرف خدا ہی کی ہستی ہے۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرتا ہے، یعنی جب خالق و رب اس کے سوا کوئی نہیں تو معبود بھی اس کے سوا اور کسی کو نہیں بنانا چاہیے۔) کی تلقین اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ خلق اور امر دونوں اللہ ہی کی ذات سے ہیں، یعنی وہی کائنات ہستی کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی کے حکم و قدرت سے اس کا انتظام بھی ہورہا ہے، یہ بات نہیں ہے کہ تدبیر و انتظام کی دوسری قوتیں بھی موجود ہوں جیسا کہ مشرکین کا خیال تھا۔ تخت پر متمکن ہوگیا۔ یعنی خدا کی پادشاہت کائنات ہستی میں نافذ ہوگئی، کیونکہ وہی خالق ہے اور وہی مدبر بھی ہے، تمام عالم ہستی اسی کے تخت جلال کے آگے جھکی ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک دوسری جگہ فرمایا (ثم استوی علی العرش یدبر الامر)