وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّهِ مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس پر ایمان لاؤ جو اللہ نے نازل فرمایا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کیا گیا اور جو اس کے علاوہ ہے اسے وہ نہیں مانتے، حالانکہ وہی حق ہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو ان کے پاس ہے۔ کہہ دے پھر اس سے پہلے تم اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کیا کرتے تھے، اگر تم مومن تھے؟
(ف ١) جب یہودیوں کو قرآن حکیم کی دعوت دی گئی تو انہوں نے توریت کے سوا اور سب چیزوں کے ماننے سے انکار کردیا ، انہوں نے کہا ، ہم تو وہی ماننے کے مکلف ہیں جو ہمارے نبی پر نازل ہوا ہے ، اس پر قرآن حکیم نے دو اعتراض کئے ہیں ایک یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے تو تمہاری پہلے انبیاء سے کیوں جنگ رہی ؟ گزشتہ انبیاء کیوں تمہارے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے ؟ وہ تو سب اسرائیلی تھے ، دوسرا یہ کہ توریت وقرآن کے پیغام میں کیا اختلاف ہے قرآن حکیم تو وہی پیغام پیش کرتا ہے جو توراۃ کا موضوع اشاعت تھا پھر انکار کیوں ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لئے تیار ہو ، ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ، پیغام ایک ہے مقصد ایک ہے تعلیم ایک ہے ، فرق صرف اجمال وتفصیل کا ہے یا نقص وکمال کا قرآن حکیم مصدق ہے مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لئے اتحاد عمل ہے ، اس میں کوئی تعصب نہیں کوئی جانب داری نہیں ۔