بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انھوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا کہ اس چیز کا انکار کردیں جو اللہ نے نازل فرمائی، اس ضد سے کہ اللہ اپنا کچھ فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ پس وہ غضب پر غضب لے کر لوٹے اور کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔
معیار نبوت : (ف ٢) بفی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں ، زخم بگڑگیا ، بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہونے زخم سے تشبیہہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لئے مفید نہیں ۔ اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیل کو نہیں ملی ؟ اور اس کے لئے مکہ کے ایک یتیم ونادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا ؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے ، یہ موہبت کبری ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے ، اس میں کسب واکتساب کو اور جدوجہد کو کوئی دخل نہیں ، اسرائیل جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمعیل کے گھرانے کے سپرد کردی گئی اس میں تم اعتراض کرنے والے کون ہو ؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو ، تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ، یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان وتیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے ، وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ، اس لئے تمہارا محض اس بنا پر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے ۔ حل لغات : مصدقا : تصدیق کرنے والا ، یستفتحون ، مصدر استفتاح ، فتح طلب کرنا ، بغیا : تمردوسرکشی ، مھین : اھانۃ کے معنی ہوتے ہیں کمزور کردینے کے ۔ ہڈی توڑنے کے ۔ عذاب مھین : سے سخت ضعف وذلت آفرین عذاب مراد ہے ۔