سورة الانعام - آیت 91

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی، جو اس کی قدر کا حق تھا، جب انھوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ کہہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لے کر آیا ؟ جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، تم اسے چند ورق بناتے ہو، جنھیں ظاہر کرتے ہو اور بہت سے چھپاتے ہو اور تمھیں وہ علم دیا گیا جو نہ تم نے جانا اور نہ تمھارے باپ دادا نے۔ کہہ اللہ نے، پھر انھیں چھوڑ دے، اپنی (فضول) بحث میں کھیلتے رہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ما قدرو اللہ حق قدرہ : (ف ٣) سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے سب کو اسی نے خلعت حیات سے نوازا ہے ، اسی نے زندہ رکھا اور زندگی کے لوازمات پورے کئے وہی سنتا ہے ، وہی جانتا ہے ۔ دکھ ، درد اور تکلیف ومصیبت میں اسی کی کارسازی بروئے کار آتی ہے ، وہ نہ چاہے تو دنیا میں پتہ نہ ہل سکے ، یہ سب اس کے انعامات ہیں ، مگر انسان ہے کہ اسے نہیں پہچانتا ۔ حق قدرہ : سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اللہ کی معرفت کی کوئی حد ہے کس کے بس میں ہے کہ وہ باندازہ نعمت اس کا شکریہ ادا کرسکے ؟ ایک ایک سانس جو ہم لیتے ہیں ہزار در ہزار نعمتوں کو مرہون منت ہے پھر انسان کے لئے یہ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی تعریف وستائش سے کما حقہ عہدہ برآہو سکے ، غرض یہ ہے کہ تم جو کچھ اور جس حد تک کرسکتے ہو ، اس سے تو دریغ نہ کرو یہ تو بالکل سہل اور ممکن ہے ، کہ تمہارا سر کسی دوسرے کے آستانے پر نہ جھکے ، تم شرک سے باز آجاؤ اور ایک اللہ سے تعلق خاطر رکھو ۔ اس کے تشکر کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرو ، کیونکہ وہ شخص جو اللہ کے حکموں کو نہیں مانتا وہ اس کی ربوبیت کی نعمتوں سے ناآشنا ہے ، حل لغات : حبط : ضائع ہوگیا ، عمل میں حبط اعمال کے معنی عمل کی نااستواری ہیں ۔ قراطیس : جمع قرطاس بمعنی کاغذ ، ورق : ام القری : مکہ کا نام ، کیونکہ اس نواع کی تمام آبادیوں میں یہ پہلی آبادی ہے ۔