وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لِّيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ
اور اسی طرح ہم نے ان میں سے بعض کی بعض کے ساتھ آزمائش کی ہے، تاکہ وہ کہیں کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہمارے درمیان میں سے احسان فرمایا ہے؟ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ جاننے والا نہیں ؟
اسلام اور معیار فضیلت : (ف1) دولتمند اور ذی وجاہت طبقہ ہمیشہ سے امتیازات خصوصی کا طالب رہا ہے ۔ اسلام کو اول اول جب مفلس اور بےمایہ لوگوں نے قبول کیا تو یہ ناک بھوں چڑھانے لگے اور محض اس بنا پر اسلام کی برکات سے محروم رہتے کہ اس کے ماننے والے غریب کیوں ہیں ، وہ یہ بھی چاہتے تھے ، حضور ان لوگوں کو جن کے دل دولت ایمان سے مالا مال ہیں ، اپنے قریب نہ آنے دیں ، اور ہماری آؤبھگت کریں ۔ اس آیت میں دراصل انہیں لوگوں کی تردید مقصود ہے فرمایا یہ مخلص ہیں صبح وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں ، ان کے قلوب میں ایمان کی روشنی ہے ، یہ گو دنیوی وجاہت سے محروم ہیں مگر ان کے دل دارین کی برکتوں سے معمور ہیں ۔ اسلام کا اصول یہی ہے ، وہ صرف جذبات کو دیکھتا ہے ظاہری شان وشکوہ اس کے نزدیک کچھ چیز نہیں ، اس کے دربار معدلت آگین میں گداگر اور شہنشاہ دونوں برابر ہیں ۔ (ف2) مقصد یہ ہے کہ دولتمند ہونا خوبی نہیں ، شاکر ہونا فضیلت ہے ، وہ شخص جو آسودہ حال ہے ، اور خدا کی نعمتوں سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کرتا یعنی منعم حقیقی کو بھول گیا ہے وہ فضل وامتنان کے قابل نہیں اور وہ جو گوغریب ہے ، مگر اللہ کا شکر گزار ہے اس قابل ہے کہ دربار نبوی میں جگہ پائے ۔حل لغات : مَنَّ: احسان کیا ۔