يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال مت کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمھیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کرو گے جب قرآن نازل کیا جا رہا ہے تو تمھارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے در گزر فرمایا اور اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت برد بار ہے۔
غیر ضروری موشگافیاں ممنوع ہیں ! (ف ١) اسلام دین فطرت ہے ، اسے نہایت سادہ اور جامع قرار دیا گیا ہے ، اس میں اصول ومعانی کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ، زندگی کے ان ابواب سے بحث کی ہے جو ضروری اور واقعی ہیں ۔ اور غیر ضروری تفصیلات کو ترک کردیا گیا ہے ، تاکہ قوائے عمل بیکار نہ ہوجائیں ۔ اس آیت میں اسی تفصیل طلبی کے جذبہ سے روکا ہے ، بات یہ تھی کہ بعض لوگوں نے ایسے سوالات پوچھے ، جن کا جواب ان کے لئے تکلیف دہ تھا ، مثلا عبداللہ بن حذافہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ کون ہے ؟ یہ مشکوک النسب تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، حذافہ بن قیس ، ایک صاحب بول اٹھے ، میرے ابا کہاں ہیں ، حضور نے جواب دیا جہنم میں ، سراقہ بن مالک نے پوچھا نے پوچھا کیا حج ہر سال ہم پر فرض ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، انما ھلک من کان قبلکم بکثرۃ سوالھم “۔ یعنی پہلی قومیں محض ان موشگافیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ، میں جو کچھ تم سے کہوں ، بلاکم وکاست مان لو ، اور جن منکرات سے روکوں ، رک جاؤ ۔