قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ
انھوں نے کہا ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ ہمارے لیے واضح کرے وہ (گائے) کیا ہے؟ کہا بے شک وہ فرماتا ہے بے شک وہ ایسی گائے ہے جو نہ بوڑھی ہے اور نہ بچھڑی، اس کے درمیان جوان عمر کی ہے، تو کرو جو تمھیں حکم دیا جاتا ہے۔
اخفائے جرم : بنی اسرائیل کی قوم میں جہاں صدہا عیوب پیدا ہوگئے تھے وہاں سب سے بڑا عیب اخفائے جرم کا جذبہ تھا اور ظاہر ہے اس کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قوم میں احساس گناہ نہیں رہا اور وہ بدمذہبی کے اس دور میں سے گزر رہی ہے جس کی اصلاح از بس دشوار ہے ۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص قتل ہوجاتا اور اس کے قاتل کا کوئی پتہ نہ چل سکتا تو پھر وہ ایک بیل ذبح کرتے اور اس کے خون سے ہاتھ دھوتے ، قاتل اگر اس جماعت میں ہوتا تو وہ اس سے انکار کردیتا ، خیال یہ تھا کہ قاتل اگر دھوئے گا تو وہ ضرور نقصان اٹھائے گا ، یہ کوئی شرعی بات نہ تھی ، محض ان کا وہم تھا جس پر ان کو یقین تھا جس طرح جاہل قوموں کے معتقدات ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، تاہم اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ، جب بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قتل ہوگیا اور انہوں نے عمدا اخفائے جرم کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مسلمہ قانون کے مطابق بیل ذبح کرنے کا حکم دیا ، اس پر چونکہ ان کے دلوں میں چور تھا ، اس لئے حیلے تراشے ، بار بار سوال کیا بیل کس طرح کا ہو ، کیا رنگ ڈھنگ ہو کس نوع کا ہو نیت یہ تھی کہ کسی طرح بات آئی گئی ہوجائے ، حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ کوئی سا بیل ذبح کردیتے تو منشائے الہی کی تکمیل ہوجاتی مگر یہ سب تفاصیل تو اس لئے پوچھی جا رہی تھیں کہ عمل کی نوبت ہی نہ آئے ، اس طرز عمل مین باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ وہ قومیں جن میں تفصیل طلبی کا جذبہ پیدا ہوجائے وہ عمل سے محروم ہوجاتی ہیں ، جب تک مذہب اپنی سادہ حالت میں رہے لوگوں میں جوش عمل موجود رہتا ہے اور جب ہر بات ایک معمہ بن جائے ، ہر مسئلہ ایک مستقل بحث قرار پائے اس وقت عمل کے لئے طبیعتوں میں کوئی جذبہ موجود نہیں رہتا ۔ بہرحال بنی اسرائیل آخر مجبور ہوگئے بیل ذبح کرنا پڑا اور معجزانہ طور پر بیل کے لمس سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے قاتل کا پتہ بتادیا ۔ اس معجزہ نے حکیمانہ طور پر انسان کی نفسیات پر روشنی ڈالی کہ وہ حتی الوسیع جرائم کے باب میں اخفا سے کام لیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ فطرت ہمیشہ مجرم کو بےنقاب کرکے رہتی ہے گویا جرم و گناہ میں اور علام الغیوب خدا کے بتائے ہوئے منصفانہ قوانین میں ایک جنگ برپا ہے ، ناممکن ہے کوئی گناہ سرزد ہو اور فطرت کی طرف سے ان پر سزا نہ ملے ۔ (ف ١) ان آیات سے معلوم ہوا کہ استہزاء علم ومتانت کے شایان شان نہیں ، البتہ مزاح ہو پاکیزہ ہو ، جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور جو خلاف واقع نہ ہو ‘ جائز ہے ۔ (ف ٢) (آیت) ” فافعلوا ما تؤمرون “۔ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو صحیح مذہب سے متعارف کرایا جائے ، انہیں بتایا جائے کہ مذہب کی اصل روح تسلیم ورضا ہے ، جرح ونقد نہیں ، ایک دفعہ ایک نظام عمل کو مان لینے کے بعد صرف عمل کے لئے گنجائش رہ جاتی ہے پس تم سے بھی یہی مطالبہ ہے