أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
کیا تو نے نہیں جانا کہ بے شک اللہ ہی ہے جس کے پاس آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے، عذاب دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور بخش دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
(ف ١) بات یہ ہے کہ اسلام چونکہ ایک کامل اور ہمہ گیر دستور العمل کا نام ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ اس میں اخلاق وروحانیت کے پہلو بہ پہلو سیاست ملکی اور تعزیرات کی بھی بہ تفصیل بیان کیا جائے اور چونکہ اس کا انتساب اس ذات گرامی سے ہے جو پاتال سے لے کر طوبی تک حکمران ہے اس لئے لازما اس میں ہمہ گیری کا رنگ نمایاں نظر آنا چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جو اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز ومتبائن قرار دیتی ہے ۔ (آیت) ” لہ ملک السموت والارض واللہ علی کل شیء قدیر “۔ میں اسی وسعت وتفصیل کی طرف اشارہ ہے یعنی چونکہ خدائے اسلام کی قدرتیں اور اختیارات لامحدود اور وسیع ہیں اس لئے وہ دین بھی جو سچا اور حقیقی دین ہے ، اسی تناسب سے ہمہ گیر اور وسیع ہونا چاہئے ۔