وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
قطع ید کی حکمت : (ف ٢) اسلامی قانون تعزیرات کا مقصد یہ ہے عام انسانوں کو مضرت ونقصان سے بچایا جائے اور اگر اس سلسلے میں چند افراد کڑی سے کڑی سزا بھی جھیل لیں تو مضائقہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولی میں جرائم کی رفتار تقریبا معدوم ہے اور جو چند ایسی مثالیں ملتی ہیں جن کی اخلاقی لحاظ سے مذموم کیا جا سکتا ہے تو وہاں بھی مذامت واعتراف کا یہ شان دار مظاہرہ ہے کہ مجرم خود عدالت میں آگیا ہے تاکہ اسے موزوں ومناسب سزا دی جائے ، یہ درست ہے کہ اسلامی سزائیں ذرا سخت ہیں مگر کیا سختی ہی برکات وسعادات کا موجب نہیں ، بات یہ ہے کہ اگر ایک شخص ہاتھ کٹوا کرناکارہ ہوجاتا ہے تو سیکڑوں انسان اس کی وجہ سے عبرت حاصل کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا سراسر ناانصافی ہے کہ اسلامی سزائیں ازمنہ وحشیہ کی یادگار ہیں ، کیونکہ وحشت تو وہ ہے جس کی وجہ سے دنیا میں مظالم کی کثرت ہو ۔ نہ وہ نظام جو جرائم کو بیخ وبن سے اکھاڑ دے ، آج یورپ کو اپنی انسانیت پر ناز ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہاں تمام دنیا سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے انسانی عزت وحرمت کا تقاضا ہے کہ زیادہ ہولناک سزا دی جائے ، مگر کیا سوسائٹی کی عزت وحرمت سے زیادہ بیش قمیت نہیں ، یہ یاد رہے کہ سزا دینا کافی نہیں ، ساتھ ساتھ تربیت بھی ہونا چاہئے تزکیہ وتطہیر کو چھوڑ کر صرف تعزیز اکثر مضر پڑتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاق کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور تعزیرات کو مزہب کے ماتحت رکھا ہے تاکہ لوگوں میں روحانیت کی وجہ سے اعلی درجے کی عادات پیدا ہوں اور وہ گناہوں سے از خود نفرت کرنے لگیں ۔ حل لغات : عذاب مقیم : عذاب دائم ۔ نکالا : سزا ۔