يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک (دھو لو) اور اگر جنبی ہو تو غسل کرلو اور اگر تم بیمار ہو، یا کسی سفر پر، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو، پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے اور لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور تاکہ وہ اپنی نعمت تم پر پوری کرے، تاکہ تم شکر کرو۔
ٹخنوں تک : (ف ١) وضو کی تفصیلات اس لئے بیان کی ہیں کہ سابقہ مذاہب میں عبادت کے لئے یہ طریق نظافت مذکور نہیں ، وضو سے جس طرح میں بالیدگی اور ایک خاص نوع کی روحانی مسرت محسوس ہوتی ہے یہ مقتضی تھی کہ اسے شرط عبادت قرار دیا جائے ، پانچ وقت وضو کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان حد سے زیادہ پاک اور ستھرا رہنے پر مجبور ہے ۔ اعضاء ظاہر کے ہر وقت پاک رہنے سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جراثیم اثر نہیں کرتے ۔ شرط عبادت اس لئے قرار دیا ، تاکہ طبیعت میں ایک خاص قسم کی آمادگی پیدا ہوجائے اور مسلمان ظاہر وباطن کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جائے ، وضو کے مسائل میں اہم اختلاف یہ ہے پاؤں دھوئے جائیں یا ان پر مسح کیا جائے ، ۔ اصحاب امامیہ مسح کے قائل ہیں اور جمہور علماء غسل کے ، بات یہ ہے کہ ” ارجلکم “ کا لفظ محل نزاع ہے ، حضرات تشیع اسے ” فامسحوا “ کے ماتحت خیال کرتے ہیں اور جمہور علماء ” فاغسلوا “ کے ، دونوں کے دلائل کتب تفسیر میں مذکور ہیں اور دونوں محل نظر وبحث ۔ قرآن حکیم کا انداز بیان اہل السنت کی تائید میں ہے کیونکہ (آیت) ” الی الکعبین “ ٹخنوں کی تقلید مسح کی صورت میں بالکل مہمل ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ (آیت) ” وامسحوا برء وسکم “ میں الی القفاء وغیرہ کی کوئی قید مذکور نہیں ، کیونکہ مسح میں صحیح تعین اکثر دشوار ہوتی ہے ۔ البتہ یہ محل غور ہے کہ ” ارجلکم “ کو خواہ مخواہ کیوں ” وامسحوا “ کے سیاق میں ذکر کیا ۔ غالبا اس کی دو وجہ ہیں ، ایک تو یہ کہ عبادت کی موسیقی قائم رہے اور قرآن حکیم کے مخصوص ترنم میں فرق نہ آئے ۔ اور یایہ کہ پاؤں دھونے میں زیادہ اہتمام نہ کیا جائے اور پاؤں کا غسل بمنزلہ مسح کے ہو ، عام طور پر عادت یہ ہے کہ لوگ پاؤں دھونے میں زیادہ اسراف سے کام لیتے ہیں ۔ (ف ١) تیمم کا ذکر ہے اور بات کو اسلام میں تکلف وتخرج قطعا موجود نہیں ، تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ ۔ حل لغات : المرافق : کہنیاں ۔ جنب : ناپاک ناپاک ۔ جنبی الغائط : جائے ضرور ۔