يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔ پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو، یا پہلو بچاؤ تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پوری طرح باخبر ہے۔
(ف ١) ان آیات میں مسلمان کو ہر حالت میں منصف وعادل رہنے کی تلقین کی ہے ۔ یہ بالکل آسان ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں حکیم بن جائیں اور عدل وانصاف کے تقاضوں سے ان کا ناک میں دم کردیں مشکل یہ ہے کہ جب سچ بولنے سے اپنے نفس پر زد پڑتی ہو اور اپنے اعزا واقرباء مصائب سے دو چار ہوتے نظر آتے ہوں ‘ اس وقت عادل رہیں اور سچی شہادت دیں ۔ قرآن حکیم نے مسلمان کا جو تخیل پیش کیا ہے ‘ وہ اتنا پاکیزہ اور بلند ہے کہ بےاختیار بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے ۔ یعنی قوام بالقسل پیکر عدل وانصاف ، سچائی کے لئے اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے والا ۔