وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ
اور وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی، جدا جدا نہیں ہوئے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس کھلی دلیل آگئی۔
ف 1: ان آیتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لفظ بینۃ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اہل بصیرت کے لئے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخلاقی رفعت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت ایک دلیل ہے سچائی کی اور صداقت کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نفس دعویٰ کے اثبات کے لئے کسی خارجی دلیل وبرہان کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود مبارک بجائے خود ایک علم ہے ، ایک ثبوت ہے اور ایک آئینہ ہے ۔ فیھا کتب قیمۃ کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نقطہ نگاہ میں یہ جامعیت موجود ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک جس قدر صحائف کا نزول ہوچکا ہے ، ان سب کی تعلیمات بطور اصول واساس کے اس میں موجود ہیں ۔ اس میں تورات بھی ہے اور انجیل بھی ۔ زبور بھی ہے اور صحف ابراہیم (علیہ السلام) بھی ۔ اس لئے اگر مسلمان کے پاس قرآن موجود ہے تو وہ ان سب کتابوں کے لئے بطور معیار کے ہے ۔ جتنی الہامی کتابیں اس وقت انسانی ہاتھوں میں موجود ہیں ، ان کی ایک ہی پرکھ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان کی تعلیمات اس کے مطابق ہیں تو درست ہیں اور اگر اس کے مطابق نہیں ہیں تو غلط ہیں *۔