لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
نہ تمھاری آرزوؤں پر (موقوف ہے) اور نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر، جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی جزا دی جائے گی اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی دوست پائے گا اور نہ کوئی مدد گار۔
معیار نجات : (ف ١) اسلام اور دیگر مذاہب کے تصور نجات میں بڑا فرق ہے ، سب مذاہب میں نجات کہتے ہیں ‘ روحانی مسرت اور عقبی کی کامیابی کو مگر اسلام کے نزدیک نجات ایک ارتقائی صورت فلاح کا نام ہے جس میں ولادت سے لے کر موت کی آغوش تک کا سامان آسائش پہناں ہے وہ مذہب جو عقبی کی بخششوں کا تو ذمہ دار ہے ، مگر دنیا کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا ‘ وہ غلط ہے ، اسلام کہتا ہے ، تمہاری نجات اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے ، جو یہاں خوش ہے اس کے لئے آسمانوں میں بھی مسرت بےپایاں کے سامان موجود ہیں اور جو یہاں مطمئن نہیں اس میں قطعا استعداد نہیں کہ وہ آخری کی نعمت ہائے جادوانی سے بہرہ وافر حاسل کرسکے ۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام جب نجات وکامیابی کی دعوت دیتا ہے تو صرف عقائد واعتراف پر زور نہیں دیتا ، بلکہ عمل صالح اس کے نزدیک بمنزلہ اساس واصل کے ہے ، اس لئے یہی ایک طریق ہے جو بالکل منطقی اور واضح ہے بغیر عمل صالح کے نجات ایسے ہی ناممکن ہے جیسے بغیر وسائل طبعی کے کامیابی (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب “۔ کہہ کر گویا ہر نوع کے غرور مذہبی ونسبی کا خاتمہ کردیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ کدا کی پیش گاہ عدوانصاف میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں ۔ (آیت) ” من یعمل کی تعمیم کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام عورت ومرد میں کوئی امتیاز نہیں کرتا ، دونوں روحانیت وسلوک کے بلند ترین مدارج تک پہنچ سکتے ہیں اور دونوں اس قابل ہیں کہ زہد وعرفان کے انتہائی زینوں پر چڑھ جائیں دونوں کی روح پاک ہے ، دونوں میں یکساں استعداد عمل ہے ۔ حل لغات : محیص : جائے فرار امانی : جمع امنیہ ۔ خواہش دل ۔ آرزو ۔