َالضُّحَىٰ
قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی!
ف 1: اس زمانہ میں چند دنوں کے لئے نزول وحی میں توقف ہوگیا تھا تو مخالفین نے یہ مشہور کرنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاذ اللہ خدا نے اب اپنی توجہ ہٹالی ہے ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا اور بتایا کہ یہ بات غلط ہے ۔ جس طرح آفتاب نکلتا ہے اور پھر جب تک اپنا دور ختم نہیں کرلیتا اس وقت تک غروب نہیں ہوتا اور جس طرح رات کی تاریکی چھاجاتی ہے اور صبح تک برابر قائم رہتی ہے ۔ درمیان میں پلٹ نہیں جاتی ۔ اسی طرح دنیائے روحانیت میں نبوت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے ۔ حق وصداقت کا خادر درخشاں نکلتا ہے ۔ تب ناممکن کہ وہ وقت سے پہلے بےتوجہی کے افق میں غروب ہوجائے اور اگر تم اس کو سورج نہ قرار دے سکو تو پھر بھی یہ اگر رات اور تاریکی ہے ۔ جب بھی وقت مقررہ تک اس کا قائم رہنا ازبس ضروری ہے ۔ بہرآئینہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہر دم ہر آن عنایات الٰہیہ کا ہجوم رہتا ہے اور کسی وقت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توجہات آسمانی سے محروم نہیں رہتے ۔ فرمایا کہ اگر آج کچھ تکلیف اور مصیبت کے دن ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آنیوالے دن نہایت مبارک ہیں ۔ سعادت اور کامیابی کے دن ہیں ۔ مکے والے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدروقیمت کو نہیں پہچانتے تو ان کی محرومی اور بدبختی ہے ۔ مدینے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استقبال اور خیر مقدم کی تیاریاں ہورہی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ وہاں قبولیت ، فتوحات ، غنائم اور مراتب اس قدر دیں گے کہ آپ خوش ہوجائیں گے اور موجودہ غم واندوہ بھول جائیں گے *۔