يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
جو پیٹھ اور پسلیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
حشر ونشر پر استدلال ف 1: قرآن حکیم کے انداز بیان کی یہ خصوصیات میں سے ہے کہ وہ پا افتادہ حقائق کو پیش کرتا ہے اور ان سے علم الٰہی کے نہایت دقیق مسائل کا استنباط کرتا ہے اور بتلاتا ہے کہ اگر تم لوگ کوتاہی نظر سے کام نہ لو تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ فرماتے ہیں ، وہ بالکل درست اور واقعہ ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تم یہ روز مرہ دیکھتے ہو کہ وہ چھلکتا ہوا پانی جو بدن کے ہر حصے سے نچڑ کر نکلتا ہے ، وہ بےجان پانی ہوتا ہے مگر ایک جیتے جاگتے انسان کو منصہ شہود پر جلوہ گر کردیتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ حلیم وحکیم خدا نے یہی مناسب اور موزوں سمجھا کہ اس معزز اور مفتخر انسان کو سا طریق اور اس نہج سے پیدا کیا جائے ۔ پھر تمہیں جب اس میں تعجب نہیں ہوتا اور تم کبھی اس حقیقت کا انکار نہیں کرتے کہ محض قطرہ آب ایک انسان کی تخلیق کا باعث ہوسکتا ہے *۔ تو پھر اس میں کیوں تعجب ہے کہ جب وہ چاہے گا تو موت کو زندگی سے بدل دے گا ۔ کیا موت اور حیات کے واقعات روزانہ تمہارے سامنے نہیں ہیں ؟ ایک وقت ضرور آئے گا جب کہ تمام راز ہائے سربستہ امتحان کی کسوٹی پر کسے جائیں گے اور دیکھا جائے گا کہ کون حق وصداقت کے مطابق ہیں اور کون مخالف ۔ پھر جن لوگوں کے متعلق وہ عذاب کا فیصلہ دے گا ۔ دنیا کی کوئی قوت اس کی اعانت نہیں کرسکے گی *۔ حل لغات :۔ الطرق ۔ رات کو آنے والا ۔ نمودار ہونے والا ۔ لما ۔ بمعنی الا ہے * ماء دافق ۔ اچھل کر نکلنے والا پانی *۔