وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
اور جب تو ان میں موجود ہو، پس ان کے لیے نماز کھڑی کرے تو لازم ہے کہ ان میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہو اور وہ اپنے ہتھیار پکڑے رکھیں، پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمھارے پیچھے ہوجائیں اور دوسری جماعت آئے جنھوں نے نماز نہیں پڑھی، پس تیرے ساتھ نماز پڑھیں اور وہ اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار پکڑے رکھیں۔ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا چاہتے ہیں کاش کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامانوں سے غفلت کرو تو وہ تم پر ایک ہی بار حملہ کردیں۔ اور تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تمھیں بارش کی وجہ سے کچھ تکلیف ہو، یا تم بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار اتار کر رکھ دو اور اپنے بچاؤ کا سامان پکڑے رکھو۔ بے شک اللہ نے کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
مسلح رہو !: (ف ١) (آیت) ” وخذواحذرکم “۔ میں یہ بتایا ہے کہ بجز عذر کے ہر وقت تمہیں مسلح رہنا چاہئے تاکہ سپاہیانہ زندگی میں ہر وقت محسوس کی جائے ۔ مطلقا سفر میں بھی قصر درست ہے ، ان اور اذا کی قیود واظہار واقعہ کے لئے ہیں ، تحدید حکم کے لئے نہیں ، سفر کی حد میں اختلاف ہے ، حضرت عمر (رض) کے نزدیک پورے دن کا سفر ، سفر ہے امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ‘ دن اور رات دونوں ہوں تو سفر کا اطلاق ہوگا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں پانچ فرسخ کا اعتبار ہے ، حضرت امام حسین (رض) کا ارشاد ہے دو راتیں ہونا چاہئیں ۔ شعبی ، نخعی اور سعید بن جبیر (رض) کا قول ہے ۔ کوفہ سے مدائن تک کا فاصلہ سفر ہے یعنی تقریبا تین دن کا سفر ۔ غرضے کہ سفر کی تعریف میں اختلاف صاف صاف بتا رہا ہے کہ ان بزرگوں کے سامنے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں جو جس نے عرف سفر کا مطلب سمجھا کہہ دیا ، بات بھی یہی ہے ۔ اصل میں اعتبار صرف عرف کا حاصل ہے ۔