ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ
بڑی قوت والا ہے، عرش والے کے ہاں بہت مرتبے والا ہے۔
آفتاب نبوت کا طلوع ف 1: قرآن کے متعلق یہ شبہ تھا کہ یہ کلام جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے پیش کیا ہے ۔ جبرائیل (علیہ السلام) کی وساطت سے نازل نہیں ہوا ۔ اس کا جواب مرحمت فرمایا ہے کہ ان پانچ سیاروں کو دیکھو جن کو مریخ زحل ۔ مشتری ۔ زہرہ اور عطارد کہتے ہیں کہ یہ جس وقت چلتے چلتے مشرق کی جانب گھوم جاتے ہیں اور جس وقت تاریک رات جانے لگتی ہے اور صبح صادق کا وقت ہوتا ہے اور آفتاب کی آمد آمد ہوتی ہے ۔ کیا اس وقت دن کی تابندگی اور روشنی میں کوش شک وارتباب باقی رہتا ہے اور کیا اس وقت سوائے آفتاب کے اور کوئی دلیل آفتاب کے وجود کو پیش کی جاسکتی ہے ۔ ع ” آفتاب آمد دلیل آفتاب “ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ یہ پانچ سیارے آخری رات کو آفتاب کی پیشوائی کے لئے مشرق کی جانب آجاتے ہیں ۔ اور اپنی آب وتاب کھوبیٹھتے ہیں ۔ اسی طرح انبیائے سابقین کا زمانہ افق حیات پر چمکنے کا ختم ہوچکا ہے ۔ کفر وظلمت کی رات جو ان کے بعد چھا چکی تھی ، اب چھٹ چکی ہے اور صبح کا اجالا نمودار ہے ۔ اور آفتاب نبوت جلوہ گر ہے ۔ اس لئے اب ان حالات میں یہ وقاع ہے کہ یہ قرآن جبرائیل علیہ لاسلام کی وساطت سے نازل ہوا ہے ۔ جو بزرگ ہے ۔ صاحب قوت ہے ۔ مالک عرش کے نزدیک ذی رتبہ ہے ۔ مطاع اور آسمانوں میں امانت داری میں مشہور ہے *۔