فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ
تو تو اس سے بے توجہی کرتا ہے۔
ف 1: غور کیجئے ۔ واقعہ کے لحاظ سے یہاں کوئی نافرمانی یا معصیت نہیں ہے ۔ بلکہ معاملہ صرف یہ ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں میں کہ کون توجہ اور التفات کا زیادہ مستحق ہے ۔ مکہ والے یا یہ نابینا صحابی صحیح اور اولیٰ فیصلہ نہیں کرپائے اور مسئلہ کے ایسے پہلو کو اختیار کرلیا جو عنداللہ معقول تھا ، افضل نہیں تھا *۔ قرآن کی یہ آیات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صادق اور مامور من اللہ ہونے پر بہترین دال ہے ۔ کیونکہ معاذ اللہ اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچے نہ ہوتے تو ان آیتوں کو جس میں آپ کو متنبہ کیا گیا ہے کبھی قرآن کے اوراق میں درج نہ فرماتے ۔ یہ واقعہ بجائے خوددعویٰ نبوت میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ کہ اتنی بڑی تنبیہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بغیر کسی تشریحی نوٹ کے ابد تک باقی رکھا اور اپنے عقیدت مندوں کو بتایا کہ مجھے اس مقام پرٹھوکر لگی ہے *۔