أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، پھر جب ان پر لڑنا لکھا گیا اچانک ان میں سے کچھ لوگ، لوگوں سے ڈرنے لگے، جیسے اللہ سے ڈرنا ہو، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنا اور انھوں نے کہا اے ہمارے رب! تو نے ہم پر لڑنا کیوں لکھ دیا، تو نے ہمیں ایک قریب وقت تک مہلت کیوں نہ دی۔ کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو متقی بنے اور تم پر ایک دھاگے کے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
(ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ منافقین کی جماعت جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، شور مچا رہی تھی کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے اس وقت انہیں روکا گیا اور کہا گیا کہ صلوۃ وزکوۃ ہی پر اپنی تمام قوتیں مرکوز رہنے دو اور جہاد کا مطالبہ نہ کرو ، کیونکہ یہ ایک ہنگامی و وقتی چیز ہے ، مگر یہ تھے کہ اظہار ایمان وایقان کے لئے بیقرار تھے اور جب جہاد فرض قرار دیا گیا ، وقت آگیا کہ کفر کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے تو یہ انتہا درجے کے بزدل ثابت ہوئے ان کے دلوں میں لوگوں کا ڈر اس درجہ سرایت کر گیا کہ یہ بہانے تلاش کرنے لگے ، حالانکہ مومن سوائے خدا کے اور کسی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتا ، وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمام قوتیں اس سے ڈریں اور مرعوب رہیں ، نہ اس لئے کہ وہ خود غیر اللہ اشخاص سے خائف ہو ، فرضیت جہاد کے بعد جس اضطراب اور گھبراہٹ کا اظہار لوگوں نے کیا ، قرآن حکیم نے بتفصیل اسکا ذکر کیا ہے تاکہ ان لوگوں کی جلد بازی اور وقت پر کم ہمتی ہمیشہ یاد رکھیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو صلح کے زمانے میں زیادہ پرجوش ہوتے ہیں ، جنگ کے زمانے میں نہایت عافیت پسند رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ دیکھو دنیا میں چند دن رہنا ہے ، اس چند روزہ زندگی کے لئے لیت ولعل نہ کرو ، وقت آگیا ہے تو کود پڑو ، انجام وعاقبت ایسے ہی جانبازوں کے لئے ہے ۔