سورة الإنسان - آیت 24

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پس اپنے رب کے فیصلے تک صبر کر اور ان میں سے کسی گناہ گار یا بہت ناشکرے کا کہنا مت مان۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) غرض یہ ہے کہ یہ منکرین محض اس لئے قرآن کی برکات اور حق وصداقت کے انوار سے محروم ہیں کہ یہ اس نقطہ کو اس نسیہ پر ترجیح دیتے ہیں جو اس سے زیادہ بیش قیمت ہے اور زیادہ واقعی ہے ۔ان لوگوں کو دنیائے عاجل کی چمک دمک نے کچھ ایسا مبہوت کررکھا ہے کہ انکی نظریں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتیں۔ یہ مادیت کی عارضی لذت کو حاصل حیات سمجھے ہوئے ہیں اور ان کی رائے میں جو کچھ ہے یہیں ہے ۔ اس کے بعد وہاں مشکوک ہے یا بعیداز عقل ۔ حالانکہ اس دنیا کا حس مٹنے کو ہے ۔ اس کاسارا نظام ضائع ہونے کو ہے اور جرم کھلنے کو ہے ۔ پھر سوائے عقبیٰ اور عالم آخرت کے کوئی چیز قطعی اور یقینی نہیں ۔ فرمایا کیا یہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے ان کو پپدا کیا ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں تو کیا محض عبث اور بیکار۔ کیا ان کی تخلیق کے پس پردہ کوئی غرض اور مقصد کار فرمانہیں ؟ یاد رہے کہ اگر انہوں نے ہمارے پیغام کو ٹھکرایا تو جس طرح ان کو ہم نے کتم عدم سے نکالا ہے اور وجود کے شرف سے نوازا ہے اسی طرح ان کو مٹاکر ان کی جگہ دوسری قوم کو آباد کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قرآن تذکیر اور نصیحت ہے جو شخص چاہے اس کی وساطت سے خدا کی راہ پر گامزن ہوجائے ۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہ میلان خود موقوف ہے اللہ کی توفیق پر اور اس کی مشیت پر ۔