سورة الإنسان - آیت 12

وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھیں ان کے صبر کرنے کے عوض جنت اور ریشم کا بدلہ عطا فرمایا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

کوائف جنت (ف 2) کوائف جنت کے متعلق اصولی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بقول حضرت ابن عباس کے محض اسماء ہیں جن کی حقیقت سے ہم آگاہ نہیں ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ ورنہ وہاں جو اہتمام ہے جو حسن ہے جو کمال ہے اور فیوض ہیں ان کو نہ زبان علم سے ادا کیا جاسکتا ہے اور نہ بشری طاقت ہے کہ ان کے الفاظ کو منتخب کرسکے ۔ مختصر الفاظ میں ساری جنت کا مفہوم یہ ہے کہ خدا خوش ہے اور وہ اپنے بندوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔ اور جب وہ خوش ہو جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے جس نے ستاروں کو اور نجوم وکواکب کو بنایا ہے جس نے چاند کو روشنی بخشی ہے اور آفاتاب کو ضیاء جس نے پھولوں میں خوشبورکھی ہے اور ٹہنیوں میں لچک وہ جب خوش ہو اور اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہے تو آپ ہی بتائیے کہ وہ اظہار کتنا خوبصورت کس درجہ باکمال اور کس درجہ حیرت انگیز ہوگا ۔ جنت مقام رضا ہے اس لئے وہاں کی چیزوں میں نشاط اور مسرت کا ظہور ضروری ہے ۔ بعض لوگوں نے جنت کے ان کوائف کو سن کر اعتراض کیا ہے یہ کیسی جنت ہے جس میں یہ تمام وہی مزخرفات ہیں جو دنیا میں ہیں ؟ ان کو اولاً یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی چیزوں اور انکا مقابلہ ہی کیا ہے ۔ یہ عارضی اور فانی وہ دائمی اور ابدی ، یہ ناقص وہ کامل ان میں تکدرت دنیوی کا اندیشہ ان میں بالکل نہیں ۔ ثانیا یہ کیا صورت ہے کہ نجات کے لئے ایسی دنیاکا ہونا زیبا ہو جہاں اس دنیا کی خواہشات اور اس دنیا کی ضروریات نہ ہوں ۔ یہ خیال محض رہبانیت پر مبنی ہے ورنہ جہاں تک انسانی فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ ہر انسان دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں چلا جائے جہاں غم نہ ہو فکرواندیشہ نہ ہو ۔ جہاں اپنے عزیزوں کو کوئی تکلیف نہ ہو جہاں ہمیشہ جوان رہیں جہاں تازگی اور مسرت کے پورے لوازم ہر آن موجود رہیں ۔ اور جہاں روح اور جسم کی تمام خوشیاں مہیا ہوں ۔ قرآن کہتا ہے ایسی دنیا موجود ہے اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ اس دنیا میں اپنے ارادوں اور اپنی خواہشات کو اللہ کے تابع کردو نتیجہ یہ ہوگا کہ اس دنیائے مسرت واجتہاج کو وہ تمہارے تابع کردیگا۔کہیے اس میں کوئی اعتراض کی بات ہے ۔ اصل میں یہ اعتراضات اس لئے نہ قابل التفات ہیں کہ ان میں انسانی فطرت کی صحیح ترجمانی نہیں کی گئی ۔ یہ اوپر سے دل کی پیداوار ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ معلوم کرلیا جائے کہ کیا واقعی اس طرح ہونے والا ہے؟