وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ بَاسِرَةٌ
اور کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔
دیدار الٰہی ف 1: جمہور اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن رویت باری تعالیٰ سے مشتاقان جمال ضرور مشرف ہونگے ۔ اور اللہ تعالیٰ ازراہ قرب وخوشنودی ان کو موقع دیں گے ۔ کہ وہ بارگاہ حسن میں عقیدت نیاز مندی کے نذرانے پیش کرسکیں گے ۔ اہل محل واعتزال کا عقیدہ یہ ہے ۔ کہ قرب وحضوری کے مقامات پر فائز ہونا تو ناممکن ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ قرب اتنا زیادہ ہو کہ یہ مقربین متعین جناب قدس کے سامنے اپنے کو محسوس کریں ۔ اور وہی یقین کا مرتبہ حاصل کرلیں ۔ جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے ۔ جو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہا ہو ۔ اور اس طرح اس قرب وحضوری پر وہ شادمانی اور مسرت کا اظہار کریں ۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ وہ حسن مطلق اور جمال جہان سورۃ جس کو موسیٰ عمران کی قوت وتاب برداشت نہیں کرسکی ۔ جس کی ایک تجلی سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ اس کو ان محدود اور بےقوت آنکھوں سے دیکھاجاسکے ۔ دونوں کے پاس دلائل ہیں ۔ اور دونوں ایک حد تک حق پر ہیں ۔ جہاں تک شوق ومحبت کا تعلق ہے ۔ اور اللہ کے کرم ونوازش کا تعلق ہے ۔ دیدار میں کیا مضائقہ ہے ۔ اور جہاں اس کی جلالت قدر کا سوال سامنے آتا ہے ۔ کچھ ناممکن سا معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ وبدار شوخ چشمی کی مد میں داخل ہوجاتا ہے ۔ غالباً حق واعتدال کی راہ یہ ہے ۔ کہ نظریں تو اٹھیں گی ۔ مگر روایت کا حصول مشکل ہے ۔ یعنی جلوہ فرمائیوں کے منظر تو آنکھوں کے سامنے ہونگے ۔ مگر احاطہ ادراک اور پوری طرحنظروں کا چاروں طرف سے گھیرلینا ناممکن ہوگا ۔ آیت کا مقصد یہ ہے ۔ کہ کچھ لوگ تو ایسے خوش قسمت ہونگے ۔ کہ اس وقت قرب وحضوری کے اس مرتبہ کو پاکر مسرور ہونگے ۔ اور کچھ ایسے ہوں گے جو بورد دوری کی وجہ سے مایوس ان کے چہروں پروہ آب وتاب نہ ہوگی ۔ جو مومنین کے حصہ میں آئے گی *۔ حل لغات :۔ العاجلۃ ۔ دنیا * ناضرۃ ۔ رونق ۔ شاداب وشگفتہ * باسرۃ ۔ بےآب ۔ بےرونق * فاقوہ ۔ وہ تکلیف جو کمر توڑدے *۔