سورة القيامة - آیت 14

بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلکہ انسان اپنے آپ کو خوب دیکھنے والا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ایک لطیف ربط (ف 3) ﴿بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ کہہ دینے سے شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ جب اس عالم آخرت میں انسان میں ایسی بصیرت پیدا ہوسکتی ہے کہ اس کے تمام اعمال اس کے قلب میں مرتسم ہوجائیں اور ان نفوش کو معلوم کرلے جو ان اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور حقیقت حال پر مطلع ہوجائے ۔ تو پھر اس دنیا میں یہ کیوں ممکن نہیں ہے اور کیوں ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہاں کتاب فطرت کے درد سر کو لیں اور اس طرح وحی والہام کی ضرورت واحتیاج باقی نہ رہے ۔ فرمایا یہ ہمارے ذمہ ہے یہاں یہ چیز ممکن نہیں ہے کہ تم اپنی دفاعی کاوش اور محنت سے کسی نظام رشدوہدایت کو معلوم کرلو ۔ چنانچہ حضور (ﷺ) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب آپ قرآن کی تلاوت فرمائیں تو سہج سہج سے۔ یہ ہمارا کلام ہے کہ ہم اس کو آپ کے سینہ میں جمع کردیں اور آپ کو پڑھادیں بس جب ہم پڑھیں (فرشتہ کی وساطت سے) تو آپ بھی ساتھ پڑھتے جائیں اور اس پر یقین رکھیں کہ اس کی توضیح وتشریح بھی ہم کرینگے اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن بحیثیت مسن کے مطاع ہے ۔ اسی طرح بحیثیت شرع کے مطاع ہے ۔ حجت اور سندرہے ۔