سورة نوح - آیت 27

إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک تو اگر انھیں چھوڑے رکھے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور کسی نافرمان، سخت منکر کے سوا کسی کو نہیں جنیں گے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بت پرستی کی وجہ ف 1: حضرت نوح نے بطور فریاد فرمایا ہے ۔ کہ اے اللہ ان لوگوں کے میرے اخلاق کی پرواہ نہ کی ۔ اور ان لوگوں کے پیچھے لگے ۔ جو مال ودولت اور دنیوی اعزاز میں مشہور تھے ۔ اور جنہوں نے حق وصداقت کو مٹانے کے لئے بڑی بڑی تدبیریں اختیار کیں ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ خود ان سرمایہ دار ان عزت وجاہ اور اولاد والوں اور ان کے ورثاء کو نقصان ہی پہنچا ۔ اور یہ لوگ سچائی کے مقابلہ میں صراحتاً گھاٹے میں رہے ۔ ان اکابر نے قوم کو یہ پٹی پڑھائی ۔ کہ دیکھو ۔ کہیں توحید کے اختیار کرکے اپنے مضبوط اور پکے عقیدے سے دست بردار نہ ہوجانا اپنے بتوں کو عزت واحترام سے رکھنا ۔ اور کسی وقت بھی ان سے عقیدت منقطع نہ کرنا اس طرح ان حاملین دولت وثروت سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور بالآخر طوفان بادوباران کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ اور جہنم وصل ہوئے * ان آیات میں معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضرت نوح کے زمانے میں بھی بت پرستی موجود تھی ۔ حالانکہ توحید جیسے ظاہر ونمایاں عقیدہ کے ہوتے ہوئے عقلاً اس کا کوئی احتمال نہیں معلوم ہوتا ہے ۔ اور عقل وبصیرت بالکل اس کو باور نہیں کرتی ۔ کہ انسانوں ، بتوں ، پتھروں ، درختوں اور تماثیل وہیاکل کو خدا سمجھ لیا جائے ۔ جب کہ ان سب چیزوں کو انسانی ہاتھوں نے بنایا ہے اور یا ان میں کوئی بات خرق وعجب کی نہیں ہے ۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ کہ ابتداء سے اب تک لوگ زیادہ تر مشرک ہیں ۔ حالانکہ شرک کے حق میں کوئی وجہ معقول نہیں ہے ۔ یہ سوال اکثر دلوں میں کھٹکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے ۔ کہ اس کی چند وجہ ہیں *۔ (1) ہوسکتا ہے ۔ کہ لوگوں کے دل میں ابتداء یہ خیال ہو ۔ کہ خدا ان کی مادی اشکال وصورت میں متجسد ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ان کا احترام ضروری ہے *(2) یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ بعض چیزوں کی افادیت کو دیکھ کر ذہن اس شرف منتقل ہوا ہو ۔ کہ اللہ نے ان کے ذمہ کچھ خدمات لگارکھی ہیں *(3) ایک یہ صورت بھی ہے ۔ کہ ابتداء ہر عجیب وغریب مظاہرہ کو فہمی کی وجہ سے الوہیت کی کرشمہ سازی قرار دیا گیا ہو *(4) وسیلہ اور ذریعہ کا خیال بھی اس کا باعث ہوسکتا ہے ۔ (5) یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ صلحاء کیموت ایک نسل نے ان کے مجسموں کو اور ان کی قبروں کو بطور احترام اور یادگار کے باقی رکھا ہو ۔ اور بعد میں آنے والی دوسری رکھا ہو ۔ اور بعد میں آنے والی دوسری نسل نے پرستش شروع کردی ہو ۔ (6) اور ان چیزوں کو بطور کعبہ و قبلہ کے استعمال کیا گیا ہو اور ان کے بعد لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا ہو ۔ اور اس کی جسارت شروع کردی ہو *۔ یہ سب تاویلات ہیں ۔ جو شرک کی طرف سے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ اسلام نے ان سب کی تردید کی ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ خدا کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں وہ تجسد دھول کی آلودگی سے پاک ہے ۔ تمام مظاہر کو پیدا کرنے والا ہے ۔ ذرائع اور وسائل کی اس حد تک پہنچنے کے لئے بالکل ضرورت نہیں اپنے اختیارات کو وہ بانٹ نہیں دیتا ۔ وہ تنہا ساری کائنات کا اس سے انبیاء علیہم السلام اپنی امت کے حق میں اتنے شفیق اور رحمدل ہوتے ہیں کہ حتیٰ الامکان کبھی ان کے لئے بددعا اور ہلاکت وفنا کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ الا اس حالت میں جبکہ قوم میں نیکی کی صلاحیت بالکل مفقود ہوجائے ۔ اور اس کا زندہ رہنا خود اس کے اور آئندہ نسل کے لئے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے مفتر ہو * ایسی حالت میں مناسب اور موزوں یہی ہوتا ہے ۔ کہ یہ قوم اپنے ناپک وجود سے زمین کو پاک کردے ۔ اور دوسری قوموں کو موقع دے ۔ کہ وہ فرمانبرداری اور اطاعت شعاری سے اپنے زندگی کے استحقاق کو ثابت کریں ۔ چنانچہ ٹھیک ایسے ہی حالات میں مایوس ہوکر حضرت نوح نے اللہ سے اس بدنہاد قوم کی ہلاکت کے لئے درخواست کی ۔ جنہوں نے تقریباً ایک ہزار برس تک اللہ کے پیغام کیساتھ استہزاء کیا ۔ اور اس کے حکموں سے سرتابی کی *۔ حل لغات :۔ سراجا ، چراغ ، کبارا ، بہت بڑا ۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر بتوں کے نام ہیں ۔ جن کی سوا لوگ پوجا کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ بنیان ۔ رہنے بسنے والا ، اشارہ ہلاکت *۔