فَذَرْهُمْ يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا حَتَّىٰ يُلَاقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ
پس انھیں چھوڑ دے کہ وہ بے ہودہ باتوں میں لگے رہیں اور کھیلتے رہیں، یہاں تک کہ اپنے اس دن کو جا پہنچیں جس کا وہ وعدہ دیے جاتے ہیں۔
مالداروں کی ذہنیت (ف 1) کہ ان لوگوں کو اپنے مال اور اپنی دولت پر بڑا ناز ہے ۔ اور ان کی رائے میں چونکہ یہ دنیا کی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں اس لئے ضروری ہے کہ عالم آخرت میں بھی ان کا تفوق غربا پر قائم رہے اور وہاں بھی جنت کی تمام مسرتوں سے استفادہ کرنے کا انہیں حق حاصل ہو ۔ حالانکہ یہ قطعاً اس پاک جگہ میں جانے کی استعداد نہیں رکھتے اور مال دولت چاندی سونے کے ذخائر کو یہ لوگ کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اپنے کو افضل سمجھتے ہیں اور غریب مسلمانوں کو اپنی نظروں میں حقیر جانتے ہیں ۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان چیزوں سے کہیں یہ اپنی فطرت کو بدل سکتے ہیں ؟ کیا یہ وہی نہیں ہیں جن کو ایک قطرہ آب سے پیدا کیا گیا ہے اور جب یہ حقیقت ہے کہ ان کی دنیا میں آنے کی حیثیت ایسی ہے کہ اس میں یہ ساری نوع کے ساتھ برابر ہیں تو پھر فخروغرور کیسا اور سیادت وبرتری کا ادعا کیسا ۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر لوگ اس پا افتادہ حقیقت کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں کہ بڑے سے بڑا انسان بھی دنیا میں اسی طریق سے آیا ہے تو یہ غرور اور فخر جس کی وجہ سے نوع انسانی تفوق وامتیازات بے جا کی لعنت میں گرفتار ہے یکسر رہا ہوجائے ۔ اور اس ناہمواری کا جو سماج میں رائج ہے بالکل خاتمہ ہوجائے ۔