سورة الحاقة - آیت 28

مَا أَغْنَىٰ عَنِّي مَالِيَهْ ۜ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

میرا مال میرے کسی کام نہ آیا۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: ہم دنیا میں اپنے مال ودولت پر مفرور تھے ۔ اور سمجھتے تھے ۔ کہ یہ ثروت ۔ یہ کنوز اور خزائن ۔ ہمیں عاقبت میں بھی عزت وافتخار تخشیں گے ۔ اور جس طرح دنیا میں ہم تمول کی وجہ سے ہر نوع کی آسودگی حاصل کرلیتے ہیں ۔ شاید آخرت میں بھی اس کی بدولت جنت اور اس کی آسائشوں کو خریدا جاسکے گا ۔ مگر آہ کہ یہ خیال درست ثابت نہیں ہوا ۔ ان لوگوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا ۔ کہ ان کو پکڑلو ۔ اور طوق وسلاسل پہنادو ۔ اور پھر ایک طویل زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دو ۔ کیونکہ ان لوگوں کا اللہ پر ایمان نہ تھا ۔ ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی نہ تھی ۔ ان کے دل غریبوں کو دیکھ کر پسیجتے نہ تھے ۔ یہ اپنے دسترخوان سے مسکینوں کو کھانا نہیں دیتے تھے ۔ اور ان کو دیکھ کر ان کے لئے جذبات شفقت وہمدردی پیدا نہیں ہوتے تھے ۔ اس لئے آج دن کا یہاں کوئی دوست نہیں ۔ جو ان کو اس ذلت وخواری سے بچا لے ۔ اور کھانا بھی جو ان کو یہاں ملے گا ۔ وہ غسلین کا سخت گنہگار ہی کھاسکتے ہیں *۔ جہنم اصل میں نام ہے ۔ ذلت وتحقیر کا ۔ اور اذیت وتکلیف کا ۔ اور پوری پوری اعمال کے مطابق سزا کا ۔ چونکہ کفار آزاد تھے ۔ اس لئے یہاں طوق وزنجیر سے اس کی تواضح کی گئی ۔ پیٹ اس کے قلب ودماغ پر بھاری تھا اس لئے کھانا وہ تجویز ہوا ۔ جو اس کو بتادے کہ اللہ کے نزدیک صرف کھانا پیان کوئی زندگی کی اہم غرض نہیں ہے ۔ اور جو اپے سامنے زندگی کا نصب العین صرف یہ رکھتا ۔ کہ صبح ومسا پرکتلف اور بوقلمون کھانوں سے اپنے کام وہن کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے ۔ وہ یہاں کتنا ذلیل اور حقیر کھانا کھاتا ہے ۔ پھر اس کا معیار دنیاوی یہ تھا ۔ کہ ٹھاٹ کے ساتھ رہے ۔ عالیشان مکان ہو ۔ اور ہر قسم کے سامان آسائش میسر ہوں ۔ یہاں اس کی سزا یہ ہے ۔ کہ جہنم ٹھکانا ہو ۔ آگ اور تپش اس کا اوڑھنا بچھونا ہو ۔ شعلے اور انگارے اس کا استقبال کریں *۔ حل لغات :۔ سلطنیہ ۔ میری دلیل ، میرا رتبہ اور میرا زعم ثروت * سبحعون خطاھا ۔ درازی اور طول کی وسعت کی طرف اشارہ ہے * غسلین ۔ زخم یا اور کسی چیز کا دھوون ۔ بقول مولانا شاہ رفیع اور بریلوی *۔