سورة النسآء - آیت 43

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! نماز کے قریب نہ جاؤ، اس حال میں کہ تم نشے میں ہو، یہاں تک کہ تم جانو جو کچھ کہتے ہو اور نہ اس حال میں کہ جنبی ہو، مگر راستہ عبور کرنے والے، یہاں تک کہ غسل کرلو۔ اور اگر تم بیمار ہو، یا سفر پر، یا تم میں کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو، یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر کوئی پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو، پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر ملو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا، بے حد بخشنے والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ نماز کے وقت سکرو مستی میں نہ رہو ۔ بات یہ تھی کہ تحریم خمر کی آیات کے نزول سے پہلے شراب عام طور پر استعمال کی جاتی تھی ، حضرت عبداللہ بن عوف (رض) نے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی دعوت کی اور اس میں شراب میں بھی انتظام کیا ، سب نے پی اور مست ہوگئے ، مغرب کی نماز میں امام جب قرآن پڑھنے لگا تو غلط ملط آیا پڑھ گیا جس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “ ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ الفاظ کی صحت کا خیال رہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھتے وقت نماز کی روح ومعنویت سے واقف رہنا نہایت ضروری ہے ۔ وہ شخص جو نماز کا سادہ سے سادہ ترجمہ بھی نہیں جانتا وہ کیونکر صحیح معنوں میں نماز کے کوائف روحانیہ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ! جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے یہ اتنے سخت ہیں کہ بلا ترجمہ وعلم نماز پڑھنا قرآن کے نزدیک بمنزلہ سکرومستی کے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری نمازوں کو قبول فرمائے ۔ فلسفہ تیمم : (ف ٢) معذوری کی حالت میں جب پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلینا کافی ہے مقصد یہ ہے کہ مسلمان خدا کی عبادت میں بہرحال کوشاں رہے اور کوئی معذوری اس کے لئے رکاوٹ کا باعث نہ ہو سکے ، چونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو باقاعدہ وباضابطہ رہنے کی تلقین کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ بہرحال ضبط وانتظام میں فرق نہ آنے دے ۔ تیمم کے معنی قصد وارادہ کے ہیں ۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ ارادہ پاک وبلند رہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر حالت وکیفیت میں پانی ضروری ہو ۔