سورة الملك - آیت 9

قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ کہیں گے کیوں نہیں؟ یقیناً ہمارے پاس ڈرانے والا آیا تو ہم نے جھٹلا دیا اور ہم نے کہا اللہ نے کوئی چیز نہیں اتاری، تم تو ایک بڑی گمراہی میں ہی پڑے ہوئے ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پردہ زنگاری میں ف 1: سابقہ آیات میں یہ بتایا تھا کہ یہ نظام کائنات بہرنوع کامل ہے اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ہے ۔ اور اس کو دیکھ کر بادنی تامل ہر شخص کہہ سکتا ہے ۔ کہ اس کو بنانے والا اور کتم عدم سے وجود میں لانے والا کوئی صاحب علم وقدرت خدا ہے ۔ اس پردہ زنگاری کو دیکھ کر شبہ نہیں ۔ بلکہ یقین ہوتا ہے ۔ کہ اس میں کوئی معشوق ضرور پنہاں ہے ۔ اس زندگی وموت کے تسلسل کو مشاہدہ کرنے کے بعد کون ہے ۔ جو تلی اور ممیت ذات کا انکار کرسکے ۔ اور اس سقف زنگار کی آرائش وخوبی کو دیکھ کر کہیں میں جرات ہے ۔ کہ اس نوزانی جہان کو تسلیم نہ کرے ۔ پھر وہ لوگ جو ان سب چیزوں کو صبح ومساء دیکھتے ہیں ۔ اور ذات خداوندی اور ایمان کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہوتے ان کے اے منسوائے جہنم کے اور کہاں ٹھکانا ہوسکتا ہے *۔ یہ لوگ اس وقت تو اس ہولناک منظر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ کہ کیونکر اس آگ کی تپش اور حرارت کو برداشت کرسکیں گے ۔ جو مارے غصے کی پیچ وتاب کھاتی اور چیخ رہی ہوگی ۔ مگر جب ایک گروہ کی شغل میں ان کو دوزخ میں جھونکا جائیگا ۔ اور فرشتے ازراہ تحقیر پوچھیں گے ۔ کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نذیر نہیں آئے تھے ؟ جو تمہیں برائیوں سے روکتے اور انکار وتمرہ سے منع کرتے ۔ کیا انہوں نے اس مقام کی سختیوں اور تکلیفوں کے متعلق تم سے کچھ نہیں کہا تھا ۔ تو اس وقت یہ لوگ اپنی کوتاہی فکر اور بدعملی کا کھلے لفظوں میں اعتراف کریں گے ۔ اور کہیں گے کہ بلا شبہ اللہ کے پیغمبر ہمارے پاس آئے تھے ۔ مگر ہم نیان کو اس وقت تسلیم نہیں کیا ۔ اور الٹا ان کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ اگر اس وقت فہم وبصیرت سے کام لیتے ۔ حق بات کو سنتے اور دل میں اتارلیتے ۔ تو آج یہ روز بدو دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ مگر آہ کہ یہ اعتراف اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا ۔ اس وقت کا اقرار سوائے اس کے کہ حسرت اور کوفت میں اضافہ کردے ۔ کوئی فائدہ انہیں پہنچائے گا *۔ حل لغات :۔ رجوما لشیطین ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ جب ارواح خبیثہ آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں اور اسرار لاہوت کو معلوم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں ۔ تو ان سیاروں میں سے ایک برقی رو نکلتی ہے ۔ جو ذرات فلکی کو آگ لگا دیتی ہے ۔ اور وہ شہاب ثاقب بن کر ان پر گرتے ہیں اور اس سے بہ سلسلہ سماعت ونعمتیں منقطع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بروج اور ستاروں کو ہی طرح بنایا ہے کہ کاہن ان کو دیکھ کر کوئی قطعی اور ہمتی پیشگوئی نہیں کرسکتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں ۔ وہ محض الاقبیل رحم یا صفت ہے * شھیق ۔ زورکی آواز * قبضہ ۔ جونس مارضے سے تعبیر ہے *۔