تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
بہت برکت والا ہے وہ کہ تمام بادشاہی صرف اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
اسلامی سوشلزم (ف 1) جہاں تک ذات خد اوندی کا تعلق ہے وہ تو اضافہ وارتقاء مراتب سے یک قلم منزہ اور پاک ہے ۔ اس لئے ﴿تَبَارَكَ﴾کے یہ معنی تو ہرگز نہیں ہیں کہ اس کی صفات جلال اور شئون جمال میں کہیں ازدیاد کا امکان ہے ۔ اس کی شان ازل سے ابد تک یکساں ہے ۔ وہ ’’ الآن كما كان ‘‘ کا مصداق ہے ۔ وہ قدرت وحکمت اور حسن وکمال کا وہ آخری مفہوم ہے جس تک عقل انسانی پہنچ سکتی ہے مگر اس کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ البتہ اس کے معنی یہ ہوسکتے ہیں کہ اس کے فیوض رحمت میں ابداً اور دائماً باعتبار کائنات کے اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کی ربوبیت زیادہ اتم زیادہ جمیل اور زیادہ مفید شکل میں بدل رہی ہے ۔ ﴿بِيَدِهِ﴾کالفظ جسمانیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ مفہوم تملیک کو زیادہ مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ کائنات ارضی وسماوی کا حقیقی مالک صرف خدا ہے ۔ اور یہ لوگ جو جبروظلم اور استبداد وغضب کی بناء پر دنیا پرچھارہے ہیں قطعاً اس بات کا استحقاق نہیں رکھتے کہ دنیا کے تنہا مالک قراردیئے جائیں ۔ اور غربا اور مساکین کو زندگی کے تمام فیوض سے محروم کردیں ۔ مالک خدا ہے اور یہ لوگ نفس امین ہیں ان کا کام یہ نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے دنیا کے منافع کو تصرف میں لائیں ۔ بلکہ یہ ہے کہ خدا کے قوانین کے مطابق دولت وثروت کی تقسیم کریں ۔ اشتراکیت اور اسلام کے تخیل میں یہی بنیادی اختلاف ہے کہ اول الذکر تحریک کے مؤید تمام زمین اور آلات نفع کو سٹیٹ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اور توقع رکھتے ہیں کہ وہ انصاف کے ساتھ ان میں ان چیزوں کو تقسیم کردے گی ۔ اور اسلام انسانوں کی کسی جماعت کو یہ حق نہیں دیتا کہ عدل وانصاف کو اپنے ہاتھ میں لے اور لوگوں کی قسمتوں کی مالک بن جائے ۔ وہ صرف خدا پر اعتماد رکھتا ہے اور صرف اس کے منصفانہ فیصلوں کو نبی نوع انسان کے لئے مفید سمجھتا ہے ۔ اس کے نزدیک انسانوں کی کوئی جماعت اس قابل نہیں ہے کہ بغیر آسمانی ہدایات کے وہ تسلی بخش کلچرل کی تاسیس کرسکے ۔ حل لغات : الْمُلْكُ۔ ہر نوع کا قبضہ واقتدار۔