سورة التحريم - آیت 9

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اے نبی ! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر اور ان کی جگہ جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اسلام کی زندگی کفر کی موت ہے ف 2: کفر ایمان کے مابین ایک ازلی آویزش ہے ۔ اور جنگ ہے یہ ناممکن ہے کہ منکرین کے ہاتھ میں قوت واقتدار ہو ۔ اور وہ اسلام کو بخوبی گوارا کرلیں ۔ اور اس چیز کو برداشت کرلیں ۔ کہ اللہ کے بندہ علی الاعلان اس کا نام بلند کرسکیں ۔ اس کے دین کو پھسلایا کریں اور مظالم کے انسداد کے لئے منظم ہوسکیں ۔ کیونکہ اسلام کے بقاء اور کی اشاعت کا بدلہ نتیجہ اوہام اور خرافات کی موت ہے ۔ جہل اور تعصب کی موت ہے ۔ ظلم اور سفا کی کی موت ہے ۔ باطل اور جھوٹ کی موت ہے ۔ پھر اس طرح زندگی اور موت کبھی یکجا نہیں ہوسکتے ۔ تاریکی اور روشنی میں تعاون محال ہے ۔ اسی طرح یہ ناممکن ہے ۔ کہ مسلم اور کافر بشیب خاطر متحد ہوجائیں ۔ تمدنی تعلقات کا ہونا دوسری بات ہے مگر جہاں تک کفرواسلام کی فطرت کا معلق ہے ۔ ان کا اجتماع آگ پانی ۔ اور وخرمن کا اجتماع ہے ۔ اور جب کیفیت یہ ہو ۔ کہ کفر حق وصداقت کی راہ میں کانٹے بچھائے ۔ اور مشکلات پیدا کرے ۔ تو اس وقت فرض ہوجاتا ہے ۔ کہ کفرکی قوت اور شوکت کو ہمیشہ کے لئے کچل دیاجائے ۔ تاکہ دنیا اسلام کی برکات سے بہرہ مندی کے لئے تیار ہوجائے ۔ اس ضمن میں کسی رعایت اور مروت کا خیال نہیں رکھنا چاہیے ۔ اس لئے اس آیت میں فرمایا ہے کہ ان کفار اور منافقین کی شرارتیں حد اعتدال سے تجاوز کرگئی ہیں ۔ اس لئے آپ ان سے جہاد کیجئے ۔ اور ان پر سختی کیجئے ۔ مدعا یہ ہے کہ کفار کو تلوار سے رو کیے ۔ اور منافقین کو دلیلوں اور حدود قائم کرنے سے *۔ حل لغات :۔ نوبۃ نصوحا ۔ خالص سچی توبہ ۔ جس میں ریاکا کوئی شائبہ نہ ہو * اتمم فنانورنا ۔ یعنی اس روشنی کو باقی رکھ * جاھد الکفار والمنفقین ۔ اسمیں فقط جہاد کے دو معنے ہیں ۔ کفار کے مقابلہ میں لا السیف اور منافقین کے مقابلہ میں باللسان *