وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۖ كِتَابَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
اور خاوند والی عورتیں (بھی حرام کی گئی ہیں) مگر وہ (لونڈیاں) جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں، یہ تم پر اللہ کا لکھا ہوا ہے اور تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں جو ان کے سوا ہیں کہ اپنے مالوں کے بدلے طلب کرو، اس حال میں کہ نکاح میں لانے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے۔ پھر وہ جن سے تم ان عورتوں میں سے فائدہ اٹھاؤ، پس انھیں ان کے مہر دو، جو مقرر شدہ ہوں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم مقرر کرلینے کے بعد آپس میں راضی ہوجاؤ، بے شک اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
متعہ حرام ہے : (ف1) ان آیات میں بتایا ہے کہ شادی شدہ عورتیں کسی طرح بھی دوسروں کے لئے جائز نہیں البتہ مملوکہ عورتیں چونکہ بوجہ عین بمنزلہ منکوحات کے ہیں اور ان کا سابقہ نکاح فسخ ہوچکا ہے ، اس لئے وہ ” محصنات “ کی فہرست میں داخل نہیں ۔ ذیل کے الفاظ سے بعض لوگوں نے متعہ کا جواز نکالا ہے ، ﴿أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ﴾حالانکہ آیت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ بیان نکاح کا ہو رہا ہے جس کے معنی دائما کسی کو حبالہ عقد میں لے آنے کے ہیں نہ متعہ کا ، جو وقتی جذبات کے ماتحت یکسر حیوانی حرکت ہے ، ﴿مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ﴾ کی تصریح ہرگز کسی شک وشبہ کی متحمل نہیں ، اس میں واضح طور پر مفہوم مضمر ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق باہمی یا بصورت احصان ودوام ہے اور یا بصورت زنا وسفاح ۔ تیسری کوئی صورت نہیں ، یہ درست ہے کہ زمانہ جاہلیت میں متعہ کا عام رواج تھا اور عہد نبوی (ﷺ) میں بھی بعض لوگ اسے جائز جانتے رہے مگر قرآن حکیم کا ایسے طرز ازواج کو پیش کرنا جو دائمی ہو جس میں عورت کو تمام حقوق زوجیت حاصل ہوں جس میں ﴿عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾کی تلقین ہو صاف طور پر متعہ کی مخالفت ہے ، اس لئے یہ کہنا کہ قرآن حکیم میں متعہ کی ممانعت موجود نہیں ‘ تجاہل ہے ۔ زیر خط الفاظ اس وقت موجب وہم وشک ہو سکتے ہیں جب پہلے سے ذہن میں متعہ کے جواز کا خیال ہو ، ورنہ ظاہر ہے ” ابتغاء بالمال تمتع اور اجور ‘‘ان میں کوئی شے بھی متعہ کے ساتھ مختص نہیں ۔ نکاح میں بھی روپیہ خرچ ہوتا ہے اور متعہ میں بھی ، مہر ” صداق “ جس میں ہدیہ محبت وصداقت ہوتا ہے ، اسی طرح ایک قسم کا اجر بھی ، یعنی حلیہ مہر ووفا بھی اور تمتع تو ظاہر ہے جس قدر نکاح میں ہے متعہ میں نہیں ، پھر یہ کہاں سے لازم آگیا کہ ان الفاظ سے متعہ ثابت ہے ، ان الفاظ میں تو نکاح کے لوازم سے بحث ہے ۔ اصل میں غلط فہمی کا منبع یہ مسئلہ ہے کہ مہر بدل استحلال ہے ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ، مہر تو شادی کا تحفہ ہے ، فتماء نے اسے خواہ مخواہ ” معاوضہ حیوانیت “ سمجھ لیا ہے جس سے اس کی پاکیزگی میں فرق پڑگیا ہے اور اسی بنا پر حضرت تشیع نے متعہ کا جواز نکالا ہے کہ چونکہ اجرت متحقق ہے ، اس لئے تمتع ازدواج کا حق ثابت ہوا ، وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اس سے بہت بلند ہے کہ صرف چند نقرئی سکوں کے معاوضہ میں استحلال کا حق دے دے ، گو وہ اسے لازمی قرار دیتا ہے مگر اسے ” معاوضہ حیوانیت “ قرار نہیں دیتا ۔اسلام جس شکل اتحاد کو پیش کرتا ہے وہ نہایت بلند اخلاق اساسوں پر قائم ہے ، اس میں دوام اور توریث شرط ہے ۔ حل لغات : الْمُحْصَنَاتُ: آزاد ۔ شادی شدہ ، عفیف اور مسلمان عورتیں ، قرآن حکیم نے چاروں معنوں میں اس کا اطلاق فرمایا ہے ، مُسَافِحِينَ: مادہ سفاح بمعنی پہالا۔