لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِن قُوتِلُوا لَا يَنصُرُونَهُمْ وَلَئِن نَّصَرُوهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ
یقیناً اگر انھیں نکالا گیا تو وہ ان کے ساتھ نہ نکلیں گے اور یقیناً اگر ان سے جنگ کی گئی تو وہ ان کی مدد نہ کریں گے اور یقیناً اگر انھوں نے ان کی مدد کی تو وہ ضرور بالضرور پیٹھیں پھیریں گے، پھر وہ مدد نہیں کیے جائیں گے۔
یہ بزدل ہیں (ف 1) اصل میں بنی نضیر کو منافقین نے بدعہدی اور غدر پر اکسایا تھا ۔ انہوں نے ان کو یقین دلایا تھا کہ ہم ہر طرح آپ کے ساتھ ہیں آپ کو مسلمانوں کے مقابلہ میں صف آراء ہونے کے لئے کسی طرح کا تامل نہیں کرنا چاہیے ہم آپ لوگوں کی بہرحال اعانت کرینگے ۔ اگر آپ کو مدینہ سے نکل جانے پر مجبور کیا گیا تو ہم بھی نکل کھڑے ہونگے اور اس معاملہ میں ہم کسی کی بات نہیں سنیں گے۔ اور اگر جنگ ہوجائے تو پھر ہم کو آپ بزدل نہیں پائیں گے ہم آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ ہم کیونکر آپ کے ساتھ دیتے ہیں ۔ فرمایا یہ ان کی زبانی ہمدردی ہے اور محض خبث اور شرارت ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عہد وپیمان کبھی شرمندہ عمل نہیں ہونے کا ۔ ان میں جب اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ کھلم کھلا کفر کا اظہار کریں تو یہ کیونکر گوارا کرینگے کہ یہودیوں کی جلاوطنی میں ان کا ساتھ دیں اور بیٹھے بٹھائے اپنے حال اور اپنی زمینوں سے جداکردیئے جائیں ۔ ان میں ایثار کی بالکل صلاحیت موجود نہیں ہے ۔ یہ بھی ناممکن ہے کہ جنگ کے وقت یہ لوگ میدان میں مسلح ہوکر آجائیں اور آمنے سامنے ہوکر لڑیں ۔ یہ اتنے بزدل ہیں کہ اگر مقابلہ پر آنے کے لئے مجبور بھی ہوجائیں تو ایکدم دم دبا کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ اور پھر انکے لئے جان بچانا مشکل ہوجائے گا ۔ اس کے بعد ایک اصول کی بات بتلائی کہ ان لوگوں کا چونکہ اللہ پر ایمان نہیں ہے اور یہ عقیدہ کی برکت سے محروم ہیں اس لئے تمہارا وجود ان کے لئے بہت زیادہ مرغوب کن ہے ۔ یہاں تک کہ جس قدر تم سے خائف ہیں اللہ سے بھی اس قدر خائف نہیں ہیں ۔ جب ان منافقوں اور یہودیوں میں وہ اصل چیز بھی موجود نہیں جس کی بنا پر دلوں میں استحکام اور ایثار کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اس نعمت سے ہی یہ لوگ محروم ہیں جن کی عزت وحرمت کے لئے سپاہی کٹ مرتے ہیں تو ان سے بہادری اور شجاعت کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے شعلہ افسردہ سے تابش اور حرارت کی ۔ فرمایا چونکہ ان میں وہ باتیں نہیں ہیں جو عصبیت پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کو کسی اخلاقی نقطہ پر مرکوز کردیتی ہیں ۔ اس لئے گو بظاہر یہ متحدہ نظر آتے ہیں مگر بباطن آپس میں سخت اختلاف اور دشمنی رکھتے ہیں ۔ یہ ناممکن ہے کہ یہ اپنی مختلف اغراض کے باوجود صرف عداوت حق جو ایک متفقہ جذبہ ہے اس پر اس طرح مجتمع ہوجائیں ۔ جس طرح کہ مسلمان حقائق دینی میں ایک دوسرے سے وابستہ اور متعلق ہیں ۔ مسلمانوں کا اتحاد صرف سطحی جذبہ پر موقوف نہیں ہے بلکہ ایسی بلند پایہ اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر اس کی عمارت اخوت قائم ہے کہ اس میں کبھی تزلزل پیدا نہیں ہوسکتا ۔ مسلمان توحید ، قرآن ، عشق رسول پر متحد ہے جو مشرق ومغرب میں یکساں اس کے لئے باعث فخر ومباہات ہیں ۔ مگر آہ یہ اسی وقت کی باتیں ہیں جب مسلمان میں دین کی محبت اور تڑپ تھی ۔ جب مسلمان صحیح معنوں میں احیاء ملت اور اعلاء کلمۃ اللہ کی قدروقیمت کو سمجھتا تھا۔ آج ساری قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے درپے ہیں اور مسلمانوں میں اختلاف آراء کا ایک طوفان بپا ہے ۔ آج یہ بات کہ بظاہر وہ متحد ہیں اور حقیقت میں شدید ترین اختلافات میں مبتلا ہیں کفر کی علامت نہیں ہے بلکہ اسلام کی علامت ہے ۔ تعجب ہے کہ وہ قوم جس میں عناصر اتحاد اور تعاون کی اہلیت تمام قوموں سے زیادہ ہو ۔ وہ تو یوں آپس میں لڑیں اور وہ جن کے پاس کوئی ضابطہ نہیں وہ مرکز پر جمع ہوجائیں ۔ آخر اس کو سوائے شومئے قسمت اور بدبختی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔