سورة المجادلة - آیت 18

يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ ۖ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمھارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ بے شک وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں، سن لو! یقیناً وہی اصل جھوٹے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منافق جھوٹے ہیں ف 1: یہودیوں کو اسلام کے ساتھ قلبی عناد تھا ۔ منافقین ان کے ساتھ ساز بازرکھتے ۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ۔ اور اکل وشرب کی محفلوں میں شریک ہوتے ۔ اس ارتباط اور دوستی کا مقصد محض یہ تھا ۔ کہ مسلمانوں کی مذمت کریں ان کے اسراران تک پہنچائیں ۔ اور اس طرح دونوں مل کر دل جلے پھپھولے توڑیں ۔ اور پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی معلوم ہوجاتا ۔ اور آپ ان لوگوں سے باز پرس کرتے ۔ تو وہ صاف انکار کردیتے ۔ اور کہتے ۔ بخدا ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم ان تک آپ کی باتیں قطعاً نہیں پہنچاتے اور اس طرح وہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ۔ کہ ہم آپ کے دشمن اور بدخواہ نہیں ہے ۔ فرمایا آج ان یہودیوں اور منافقین کو اپنے مال پر ناز ہے ۔ اولاد کی کثرت پر غرہ ہے ۔ مگر ان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ کہ مال ودولت کی فراوانی بالکل کام نہیں آسکے گی ۔ اور اموال وانصار کی کثرت عذاب الٰہی سے بےنیاز نہیں کریگی ۔ اس وقت بھی یہ لوگ جھوٹ بولیں گے ۔ کہ دنیا میں ہم نے ان اعمال کا ارتکاب قطعاً نہیں کیا ہے ۔ مگر اس کو کہا جائے ۔ کہ وہاں جھوٹ کو بالکل فروغ نہ ہوگا ۔ فعاجو قلام الغیوب سے بھلا اس کو یہ نکرہ سو کہ اور فریب میں رکھا جاسکتا ہے ۔ اعمال کی فروسامنے ہوگی ۔ اور معلوم ہوگا ۔ کہزندگی کو کن کن مشاغل میں صرف کیا گیا ہے ۔ آج یہ لوگ اس بات پرخوش ہولیں ۔ کہ مسلمان بےسروسامان ہیں اور ان کی دل کھول کر مذمت کرلیں ۔ اس وقت جب یہ دیکھیں گے ۔ کہ انہیں مساکین اور غربا کے سروں پر افتخار اور اعزاز کا تاج رکھا ہے ۔ جن کو یہ بنظر اعتقاد دیکھتے تھے ۔ تو ان کی دل کیفیات کیا ہونگی فرمایا : بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کو جھوٹا خیال نہیں کرنے ۔ خواہشات نفس نے ان پر غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ اور شیطان ان کی رگ وپے میں سرایت کرچکا ہے ۔ یہ دنیا میں اس طرح محو ہیں ۔ کہ اللہ کو بھول گئے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس نقد کو اس نسیہ پر ترجیح دے رکھی ہے ان کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے ۔ جو منزل تک نہ پہنچے ۔ اور درمیان کی دلچسپیوں کو زیادہ اہمیت دے ۔ راستے ہی میں اترپڑے اور بھول جائے ۔ کہ اس کو آگے جانا ہے ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ اپنے اعمال اور کرتوت کی وجہ سے شیطان کا گروہ ہیں ۔ اور ان کو حتما اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ جو لوگ حق وصداقت کی مخالفت کریں ۔ فطرت سے لڑیں اور حقائق سے دست وگریباں ہوں ۔ وہ ذلیل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے یہ بات ازل سے طے کررکھی ہے ۔ کہ سچائی کا بول بالا ہو ۔ حق کو غلبہ اور تطرق حاصل ہو ۔ بلندی اور اعقلا ومیسر ہو ۔ اس کے رسول جب آئیں تو کامیاب رہیں غابء میں اور باطل کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں ۔ جھوٹ کے لئے قطعی کامیابی نہیں ہے ۔ باطل بالکل چھپ سکتا ۔ کیونکہ روشنی کے مقابلہ میں تاریکی رخصت ہوجاتی ہے ۔ اور جوئے رواں کے سامنے خس وخاشاک کا وجود نہیں رہنے پاتا *۔ ان اللہ قوی عزیز کے معنے یہ ہیں کہ اگر اللہ کے ساتھ تعلقات معبودیت استوار ہوں ۔ اگر اس کے نیاز مند رہیں ۔ اور اس جگہوں کو بلاتامل وتشویش تسلیم کریں ۔ تو پھر وہ قوت وعزت کی توفیق بخش دیتا ہے *۔