مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔
مسئلہ تقدیر کی بالکل آسان صورت (ف 2) ہر وہ شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے اور جو یہ مانتا ہے کہ اس کو ذرہ ذرہ کا تفصیلی علم ہے وہ لازم طور پر اس بات کا قائل ہے کہ کوئی چیز بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں ۔ وہ چھپی ڈھکی سب اشیاء سے واقف ہے اور ہر بات کو وقوع سے پہلے جانتا ہے ۔ اسلام اس باب میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے کہ یہ علم لوح محفوظ میں منضبط ہے اور فرشتوں کی سہولت کے لئے ایک کتاب میں لکھا رکھا ہے اور ظاہر ہے کہ اتنے سے اضافہ سے نفس مسئلہ کے سمجھنے میں کوئی نئی دشواری پیدا نہیں ہوتی کیونکہ یہ سب بہر حال تسلیم کرتے ہیں کہ خدا کے لئے عالم الغیب ہونا ضروری ہے ۔ اب قرآن بھی یہ کہتا ہے کہ علم غیب ضبط تحریر میں بھی آچکا ہے اس لئے اس میں کیا استحالہ ہے ۔ یہی تدیر ہے ۔ جس میں خواہ مخواہ الجھاؤ پیدا کئے جاتے ہیں ۔ اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ مسئلہ نہایت ہی مشکل ہے اور ناقابل فہم حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ خدانے اس کائنات کو پیدا کیا اور وہ اس کی فطرت سے پوری طرح آگاہ ہے اور بس۔ فرمایا مسئلہ تقدیر پر ایمان لانے سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان مصائب ومشکلات میں گھبراتا نہیں ہے اور مسرت کے وقت بہک نہیں جاتا ۔ وہ دکھ اور تکلیف کا دلیرانہ مقابلہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں میری قسمت میں مقدر ہیں تو خوف وہراس کی کوئی وجہ نہیں ۔ اور مسرت وشادمانی میں اللہ کا شکرادا کرتا ہے اور اس کے دل میں ایمان موجود ہوتا ہے کہ یہ سب اس کی عنایات کی طفیل ہے ورنہ میرے اعمال ہرگز اس قابل نہیں ۔ گویا مسئلہ تقدیر ایک نوع کا کیرکٹر پیدا کرتا ہے اور مرد مسلمان کو بلند نگاہ دیتارہتا ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس مسئلہ کو باالکل مخالف نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اور اس کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ عمل اور جدوجہد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ۔