سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی کی طرح ہے، وہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، وہ اسے اس کو دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔
استحقاق اور تفضل کی بحث (ف 2) اس حیثیت سے کہ جنت صلہ ہے اعمال صالحہ کا اور ایمان کامل کا ۔ یہ استحقاق ہے اور اس جہت سے کہ خود اعمال صالحہ کی توفیق مرحمت ہوتی ہے ۔ رب کریم کی جانب سے فضل اور کرم گستری ہے ۔ اور پھر ہمارے ناچیز اعمال کو اس درجہ اہمیت دینا جن میں پہلو ریاکاری اور خود غرضی کے پنہاں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض فضل اور نوازش ملتی ہے ۔ ورنہ کون شخص ہے جو دعویٰ کے ساتھ کہہ سکے کہ وہ اللہ کے احکام کی بجاآوری میں مرتبہ احسان پر فائز ہے ۔ اور اس سے نیت وعمل کی کوئی کوتاہی استوار نہیں ہوئی ۔ اور پھر اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ کسی اللہ کے بندے کو اعمال صالحہ کی پوری توفیق ہوئی ہے تب بھی یہ سب اعمال اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتے ہیں ؟ حیات کی نعمت کے مقابلہ میں کوئی نیکی بھی ہے جس کو تولاجا سکے ۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ایک سانس کے لئے جو انسان کو میسر ہے کائنات کے ہزاروں قانون حرکت میں آتے ہیں ۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ حقیر عاجز انسان زندگی کے ان مختصر لمحوں میں ادائے شکر اور اظہار سپاسی کے فریضہ سے عہدہ برآ ہوسکے۔ یہ اس کی عنایت ہے کہ وہ اعمال کے ایک نا تمام اور ناقص مجموعہ کو قبول کر لیتا ہےاور کہتا ہے کہ اگر تم اسلام کے اوامرونوا ہی کو تسلیم کروگے اور مقدور بھر نیک بننے کی کوشش کروگے تو وہ تم کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا ۔ حل لغات: كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ۔ آسمان وزمین کی وسعت ۔