سورة الحديد - آیت 3

هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہی سب سے پہلے ہے اور سب سے پیچھے ہے اور ظاہر ہے اور چھپا ہوا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

خدا اول کیوں کر ہے ؟ ف 1: خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے ۔ کہ وہ اہل ہے ۔ اور اس کو کائنات کی ہر چیز پر تقدم حاصل ہے ۔ مگر قدیم حکماء کے لئے بڑی مشکل کا سامنا تھا ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے ۔ کہ اس تقدم کی نوعیت کیا ہے ۔ کیونکر انہوں نے عام طور پر تقدم کی پانچ قسمیں لکھی ہیں :۔ (1) تقدم بالتاثیر ۔ (2) تقدم باالاحتیاج (3) تقدم بالشرف (4) تقدم باالمرتبہ (5) اور تقدم بالریان *۔ اور پانچویں قسم کے تقدم کو تسلیم کرلینے میں انہیں عقلی استخانوں کا ایک انبار نظر آتا تھا ۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں ۔ کہ وہ ذات زمانہ ہر شئے سے مقدم ہے ۔ تو خود اس جملے کا مفہوم کیا ہے ۔ کیونکہ اس کو اول کہنا یہ خرازمانے کو مستلزم ہے ۔ اور اس بات کا اقرار کرنا ہے ۔ کہ اس وقت بھی زمانہ کا کوئی حصہ ایسا تھا ۔ جس کو آپ اول فرض کرلیتے ہیں ۔ اور جس کی وجہ سے آپ خدا کو سب سے پہلے قرار دے رہے ہیں ۔ ورنہ اس کا کچھ اور مفہوم ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے سرگردہ واسلام یعنے امام رازی نے بھی یہاں کامل تحیر کا اظہار کیا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ ہم یہ اجمال کی شکل میں تو تسلیم کرتے ہیں ۔ مگر تفصیلات کا سمجھنا ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ خدا بھلا کرے ۔ نظریہ رضاقیت کے مصدق ” آئن سٹائن “ کا کہ اس نے اس الجھن کو دور کیا ۔ اور اس حقیقت کو پالیا ۔ اس نے کہا ۔ کہ زمانہ کوئی ازلی اور ابدی حقیقت نہیں ہے ۔ جیسا کہ تم سمجھتے ہو ۔ بلکہ یہ تو محض ایک اضافی چیز ہے ۔ اگر آج اشیاء موجود نہ رہیں ۔ یا ان میں حرکت مفقود ہوجائے ۔ تو زمانہ کا مفہوم ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اس کا ازلاً اور ابداً موجود رہنا نہ صرف غیر ضروری ہے ۔ بلکہ عقلاً باطل ہے ۔ اس حکیم نے زمان ومکان کے تصور کو اس درجہ بدل دیا ہے ۔ کہ اب وہ پرانے اعتراضات قطعاً وارد نہیں ہوتے اب یہ عقیدہ کہ خدا اول ہے ۔ بالکل واضح ہے کہ اس زمانے اور مقام ومکان کو بھی پیدا کیا ہے ۔ کان واحد یان لئی اور وہ تمام مخلوق سے ان معنوں میں پہلے سے ۔ کہ اس کی شان صمدیت کے ساتھ وقت اور مقام کے لئے بھی کوئی جگہ نہ تھی ۔ اور وہ اس وقت تھا ۔ جبکہ خود عدم بھی معدوم تھا ۔ اور مکان بھی مقام للی قرار دیا * آخر کے معنی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ۔ کہ اس کے بعد کوئی چیز تمہیں ظاہر ہے ۔ کہ اس کا ثبوت بالکل بدیہی اور واضح ہے ۔ وجدان وذوق اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور قطب ودماغ کے تمام گوشوں پر وہ مسلط ہے ۔ اگر انسان چاہے بھی کہ اس کا انکار کردے ۔ جب بھی اس کی وضاحت بھراعتراف کی زنجیریں لاکر پہنادیتی ہے ۔ باطن کہنے سے غرض یہ ہے کہ باوجود اس تیقن اور اس تحقق کے گار منطق اور غوروفکر کی چھائیوں میں اس کو جاننا چاہو ۔ تو ناممکن ہے ۔ اگر صحت اور فلسفہ کی آنکھوں سے دیکھا چاہو تو اس کا وجود سراپردہ خفاء میں ہے ۔ یعنی وہ مستور بھی ہے ۔ اور ظاہر بھی ہے ۔ اور واضح بھی ہے اور مخفی بھی *۔ حل لغات :۔ ثما استوی علی العرش ۔ پھر وہ عرش تذکیر وحکومت پر قرار پذیر ہوا ۔ استویٰ کی تفصیل بحث کئی مقامات پر گزر چکی ہے ۔ مختصر اً یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ یہ ایک شان حدیث ہے ۔ صفت بالفت نہیں ہے جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد پھر اس نے اپنے مرکز تدبیر شعون کی جانب توجہ مبذول فرمائی ۔ اور عرش سے کہ مقام تجلیات تخلیق ہے ۔ اور امر کو نافذ فرمایا *۔ یلج ۔ لوح سے ہے بمعنے داخل ہونا *۔