سورة الواقعة - آیت 46

وَكَانُوا يُصِرُّونَ عَلَى الْحِنثِ الْعَظِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ بہت بڑے گناہ (شرک) پر اڑے رہتے تھے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) جہنمی لوگوں کے متعلق دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ توحید کے نور سے معراتھے ۔ ایک خدا کے سامنے نہیں جھکتے تھے بلکہ اپنے اس مسلک پر مصر تھے ۔ ان کو ہرچند دلائل سے قائل کیا جاتا کہ شرک وکفر کے لئے کوئی وجہ نواز نہیں ہے اور منطقی طور پر اس عقیدہ کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ لیکن یہ برابر اس تاریکی میں بڑھتے چلے جاتے اور مسلمانوں کو چڑانے کے لئے بتوں کی پوجا کرتے ۔ پھر ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو کچھ ہے یہی زندگی ہے مرنے کے بعد حشر ونشر کا عقیدہ دور از عقل ہے ۔ یہ ناممکن ہے کہ جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں اور صرف بوسیدہ ہڈیاں رہ جائیں تو اس وقت ہم کو اور ہمارے آباؤ اجداد کو قبروں میں سے اٹھا کھڑا کیا جائے ۔ فرمایا اس میں قطعاً استحالہ کی کوئی بات نہیں تم سب پہلے اور پچھلے جمع کئے جاؤ گے اور ایک وقت مقررہ پر خدا کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے ۔ سزا کے متعلق تصریح فرمائی کہ دنیا میں تو کام ودہن کی تواضع کے لئے انہوں نے سچائی کو چھوڑ دیا تھا اور یہاں ان کو جو کچھ ملے گا وہ قطعی ان کے ناگوار ہوگا ۔ یہاں یہ زقوم کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے ۔ پھر پیاسے اونٹوں کی طرح پانی کے ساتھ کھولتا ہوا پانی پئیں گے ۔ اس وقت کہا جائے گا کہ آج بھی تمہاری مہمانی ہے کھاؤ اور برداشت کرو ۔ حل لغات : يُصِرُّونَ۔ اصرار کیا کرتے تھے ۔ الْحِنْثِ الْعَظِيمِ۔ بڑا گنا۔