لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
مردوں کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں اور عورتوں کے لیے بھی اس میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں، اس میں سے جو اس (مال) سے تھوڑا ہو یا بہت، اس حال میں کہ مقرر کیا ہوا حصہ ہے۔
اسلام اور تقسیم میراث : (ف ١) نوع انسانی کے لئے اجتماعی زندگی میں ایسے روابط کی سخت ضرورت ہے جو باہمی تعاون وتوافق کے زیادہ سے زیادہ ترغیب کا باعث ہو سکیں اور جو یہ بتا سکیں کہ انسانی عائلہ کس طریق پر ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور ان کے آپس کے تعلقات کس درجہ فطری اور طبعی ہیں ، اسلام جو اجتماعی فلاح وسعادت کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکر ایسے اہم رشتے کو فراموش کرسکتا تھا ۔ اس نے سب سے پہلے باہمی انس وتعاون کی بنیاد ڈالی اور ہر مسلمان کو ” وصیت “ پر آمادہ کیا چنانچہ اول اول لوگ اپنے مال سے کچھ حصہ بطور ” وصیت “ کے بلا تخصیص قرابت وضع کر جاتی تھی ، مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس جذبہ تعاون وتوافق کی اہمیت کو محسوس کریں بعد میں میراث کی آیتیں نازل ہوئیں ، جن میں قرابت والوں کے حصے بیان کئے گئے اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب فتوحات اسلامی بہت وسیع ہوگئیں اور مسلمان خاصے مال دار ہوگئے ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک عام انسانی تعلق زیادہ قابل اعتناء ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں حقوق میراث سے محروم قرار دی جاتیں ، عرب کہتے تھے ، میراث کا وہ حق دار ہے جو میدان جنگ میں قومی عزت کے لئے لڑے اور مال غنیمت جمع کرے ، عورتیں ہرگز اس کی مستحق نہیں ۔ موجودہ کتب مذہبی بھی تقریبا تمام عورتوں کو حقوق میراث سے محروم رکھتی ہیں ، قرآن مجید نے بیان کیا کہ عورتیں بھی اسی طرح حق دار ہیں جس طرح مرد ۔ اس لئے کہ فطرت نے سوا جنسی عوارض ولوازم کے عورت اور مرد میں اور کوئی تقسیم جائز نہیں رکھی ، تمام عورتیں نفس انسانیت میں مرد کے برابر ہیں ، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں اس انسانی حق سے محروم رکھا جائے ، وہ مذاہب جو عورت کے اس طبعی وفطری حق کے حامی نہیں وہ کس منہ سے اس کے احترام کا دعوی کرسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور کسی مذہب نے مرد اور عورت کے صحیح معنوں کو نہیں سمجھا ۔