وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کرو گے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو، دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے، پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے، یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہوں (یعنی لونڈیاں)۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ تم انصاف سے نہ ہٹو۔
تعددازد واج : (ف2) اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں دنیا کا قانون حیران وششدر ہے ، اس نے اس کا درجہ اتنا بلند اور رفیع قرار دیا ہے کہ وہاں تک غیر مسلم عورتوں کی رسائی ناممکن ہے ، مگر تعدد ازواج ایک مسئلہ ہے جو بظاہر عقل وانصاف رکھنے والوں کے دل میں کھٹکتا ہے اور غیر مسلم دنیا کے دل میں عورت کی حیثیت کی نسبت شکوک پیدا کردیتا ہے ، اور وہ یہ دیکھ کر کہ اسلام بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے ، کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں سے کوئی اچھا سلوک روا نہیں رکھا ، حالانکہ ایسا نہیں ، تعدد ازواج کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے رکھنے چاہئیں ۔ اسلام سے پہلے کثرت بعول اور کثرت ازواج کی بلا تعین اجازت تھی ، یعنی مرد جس قدر چاہتے ، عورتیں نکاح میں رکھتے اور اسی طرح عورتیں جس قدر چاہتیں ‘ خاوند بنا لیتیں ۔ 1۔ اسلام نے کثرت بعول کی جو درحقیقت غیر مہذب زمانے کی رسم ہے قطعی ممانعت کردی اور کثرت ازواج کی تحدید کردی ، اس لئے اسلام تعدد ازواج کا حامی بصورت تعیین ہے ‘ نہ موجد ومخترع کی حیثیت سے ۔ 2۔ اسلام سے پہلے عدل وانصاف کی شرط غیر ضروری تھی ، اسلام نے اس شرط کو ضروری قرار دیا ۔ 3۔ تعدد ازواج کو ہر حال میں اسلام نے اچھا نہیں سمجھا البتہ حالات کے مطابق اس کو موزوں قرار دیا ۔ 4۔ مرد بالطبع تنوع پسند ہے اور یہی وجہ ہے یورپ میں وحدت زوج کی سکیم کامیاب نہیں رہی ۔ 5۔ عورت ایک آلہ تولید ہے جس کی کثرت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ 6۔ مرد مادی حیثیت سے اتنا قوی ہے کہ بعض اوقات وہ ایک عورت پر اکتفا نہیں کرسکتا ۔ 7۔ ملکی حالات بعض دفعہ مجبور کردیتے ہیں کہ کثرت ازواج کی رسم کو جاری کیا جائے ، جیسے یورپ میں جنگ عظیم کے بعد ، کیا ان حقائق کی روشنی میں کثرت ازواج کی اجازت نہ دینا انسانیت پر بہت بڑا ظلم نہیں ؟ اور آج جب کہ ” اقلیت واکثریت “ کا مسئلہ دنیا کی سیاسیات کا اہم عنصر ہے ‘ تعدد ازواج کی خوبیوں سے کون انکار کرسکتا ہے ہندوستان میں اگر مسلمان کثرت ازواج پر عمل کرنے لگیں تو صرف پچاس سال کے بعد اقلیت بغیر کسی تبلیغ کے مبذل بہ اکثریت ہوجائے ۔ عورت کی صنفی کمزوریاں اور بیماریاں بجائے خود تعددازواج کی دعوت ہیں ، مگر چونکہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں ۔ اس لئے ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے اور یہ ہماری غلطی ہے ، یورپ آج کثرت اولاد پر بڑا زور دے رہا ہے ، مگر اسلام نے پہلے سے لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی ہے اور اس کی صورت تعدد ازواج ہے عام عورتوں میں کوئی خاص تعداد معین نہیں ۔ ﴿أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى﴾ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم یتیم عورتوں کو اپنے عقد میں لا کر انصاف نہ کرسکو تو پھر دوسری عورتوں کے ساتھ جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو ، تاکہ بےانصافی کا موقع نہ رہے ۔ ﴿مَا طَابَ﴾میں بتایا ہے کہ جو عورت جسم وروح دونوں کے لحاظ سے تمہیں اچھی معلوم ہو ‘ اور اس قابل ہو کہ رفیقہ حیات بنائی جائے ۔