فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
تو تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کو جھٹلاؤ گے؟
جنوں کا وجود ف 1: جن ایک الگ مخلوق ہے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے ۔ ان میں لطافت زیادہ ہے ۔ آج سے پچاس سال قبل تو لوگ اس مخلوق کا انکار کرتے تھے ۔ مگر اب تجربات نے ثابت کردیا ہے ۔ کہ جنات بھی موجود ہیں ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے بڑے شدومد سے کہا تھا ۔ کہ یہ محض وہم ہے ۔ اب وہی کہہ رہے ہیں ۔ کہ یہ ایک حقیقت ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ایسے جاہل بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے اس وقت کی آواز کو تو سنا تھا ۔ مگر موجودہ وقت کے خیالات سے آگاہ نہیں ۔ وہ اب تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں ۔ کہ علماء مغرب کے معتقلات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ بلکہ وہ اس قدر روشن خیال ہیں ۔ کہ سارا مغرب بھی ان مسائل کا قائل ہوجائے وہ جب بھی یہی کہے جائیں گے ۔ کہ یہ ندوی خرافات ہیں *۔ تکرار کا مقصد ف 2: اس آیت کو اس سورۃ میں بار بار بیان کیا گیا ہے ۔ تاکہ یہ حقیقت ذہن انسانی مرتسم ہوجائے ۔ کہ دو صدہا فطرت کے مظاہر جن کو ہم دیکھتے ہیں ۔ اور آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ توجہ طلب ہیں ۔ اور اس قابل ہیں ۔ کہ ان پر نگاہ عبرت اور فکر کے ساتھ غور کیا جائے *۔ عربوں کے ہاں قاعدہ ہے ۔ کہ وہ تثنیہ بول کر عام طور پر جمع مراد لیتے ہیں ۔ جیسے قغاسک من ذکوی حبیب ومنزل میں اس لئے تکذبان سے مراد سب لوگ ہیں *۔