سورة القمر - آیت 31

إِنَّا أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَاحِدَةً فَكَانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک ہم نے ان پر ایک ہی چیخ بھیجی تو وہ باڑ لگانے والے کی کچلی، روندی ہوئی باڑ کی طرح ہوگئے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

نبوت کا تصور ف 1: حضرت صالح کی قوم ثمود کے واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ کہ جب اللہ کے یہ پاکباز بندے ان میں آئے اور انہوں نے اللہ کی توحید کو بیان کیا ۔ اور تزکیہ نفس کے طریقوں سے آگاہ کیا ۔ تو ان لوگوں کی رگ کبروغرور پھڑک اٹھی ۔ انہوں نے کہا کیا ہم اپنوں میں سے ایک آدمی کو پیغمبرمان لیں ۔ اور یہ تسلیم کرلیں ۔ کہ ایک شخص جو بالکل ہماری کھاتا پیتا اور اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ وہ نبی ہے ۔ گویا ان کے نزدیک نبوت کا تصور یہ تھا کہ وہ فوق البشر خوصیات اپنے اندر رکھتا ہو ۔ اور جو کچھ ہو ۔ کم از کم انسان نہ ہو ان کو اصل میں دکھ اس بات کا ہوتا تھا ۔ کہ آخر اللہ تعالیٰ کی نگاہ انتخاب حضرت صالح بنی پر کیوں پڑی ۔ جبکہ قوم میں اور بھی معززین موجود تھے ۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے ۔ کہ ان کے نزدیک حضرت صالح سرے سے شرافت وعظمت کے ان معیاروں پر پورے نہیں اترتے تھے ۔ جن کو وہ عزت ووجاہت کے لئے ضروری قرار دیتے تھے ۔ وہ دیکھتے تھے ۔ کہ ہمارے پاس مال ودولت کے خزائن ہیں ۔ اور صالح ان سے محروم ہے ۔ ہم کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہویں ۔ اور صالح کو میسر نہیں ۔ ہم اپنی قوم میں رسوم کے پابند ہیں ۔ اور یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس صورت حالات میں یہ بات ان کے لئے ناقابل فہم تھی ۔ کہ ان کو نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے کیوں منتخب کرلیا گیا ۔ وہ نہیں جانتے تھے ۔ کہ نبوت اللہ کا دین ہے اس کی بخشش وموہیت ہے وہ جس کو چاہے ۔ اس خدمت کے لئے چن لے ۔ اور جس سے خوش ہو ۔ اس کو نوازدے ۔ وہ نبوت کے لئے خدمات اور مال ودولت کی فراوانی کو نہیں دیکھتا ۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے ۔ کہ کون زیادہ کامیابی کے ساتھ اس بارگراں کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے ۔ اور کس کے دماغ میں حق وصداقت کی تابش ہے ۔ اور کون دل اس ولائت عزیز کو حفاظت اور دیانت کے ساتھ سنبھال سکے گا ۔ اس کا معیار یہ نہیں ہے کہ قوم میں کون وجیہہ اور معزز ہے ۔ بلکہ اس کی نظر استعداد اور صلاحیت پر ہوتی ہے ۔ بہرکیف ان لوگوں نے حضرت صالح کی تکذیب کی ۔ کہ معاذ اللہ کہ یہ جھوٹا اور ہرگز نبوت کا استحقاق نہیں رکھتا ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ دیکھ لیں گے کون جھوٹ بولتا اور ارتراتا ہے ۔ ہم آزمائش کے لئے ایک اونٹنی صالح کو مرحمت ٹھہراتے ہیں *۔ باقی صفحہ اگر ان لوگوں نے اس کو تکلیف نہ دی ۔ اور پانی سے سیر ہونے دیا ۔ تو بہتر ورنہ ان پر عذاب آئے گا ۔ آپ منتظر رہیں ۔ چنانچہ ان کے ایک رفیق نے ازراہ سرکشی اس کو ذبح کرڈالا ۔ تو عذاب نے ان کو آلیا ۔ اور ان کو ان کے غرور وکبر سمیت نابود کرڈالا *۔