لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ
تجھے ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا ہرگز دھوکے میں نہ ڈالے جنھوں نے کفر کیا۔
(ف ١) یعنی اہل کفر کا مختلف شہروں میں رہنا ، ان کی وسعت مادی ۔ سازوسامان کی کثرت درحقیقت کوئی چیز نہیں ۔ بات یہ تھی کہ قریش مکہ تجارت کے سلسلہ میں سارے ملک میں گھومتے پھرتے ، یہودی بھی دولت مند ہونے کی وجہ سے عیش وعشرت سے بسر کرتے تھے ، مسلمان جب دیکھتے تو انہیں خیال ہوتا کہ ہم خدا کو ماننے والے ہیں اور عسرت وتنگ دستی میں بسر کرتے ہیں اور جو مستحق عذاب ہیں ، رفاہت سے ہیں یہ کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ چند دنوں تک ایسا ہے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے کہ ان کی امارت وتمول برباد ہوگیا اور نہایت ذلت اور مسکنت سے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ اہل کفر کو اس وقت تک ڈھیل دیتے ہیں جب تک وہ معصیت وسرکشی کی حدود سے نہیں گزر جاتے اور جب تک وہ معصیت وسرکشی کی حدود سے نہیں گزر جاتے اور جب تک کہ وہ خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا نہیں کرلیتے ، اور جب وہ بالکل آمادہ موت ہوتے ہیں تو زمانہ کی ایک ہی گردش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتے ہیں ۔